وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر مبنی فلم ’آرٹیکل 370‘

بھارت نے 5 اگست 2019 کو وادی کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے ’آرٹیکل 370‘ کا خاتمہ کرکے اس کی خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ رواں سال 5 اگست کو بھارت کے اس ظلم کو ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم استحصال منایا گیا۔

’آرٹیکل 370‘ کے خاتمے کے ایک سال مکمل ہونے پر جہاں پاکستان نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے حکومتی سطح پر 5 اگست کو یوم استحصال مناتے ہوئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تھی۔ وہیں حکومت پاکستان نے ایک بار پھر آزادی تک کشمیریوں کا ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔

مختصر دوانیے کی فلم میں صرف ایک ہی خاندان پر گزرنے والی قیامت کو دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ایک ایسے شخص کی حاملہ بیوی اور والدہ کو دکھایا گیا ہے جو ’آرٹیکل 370‘ کے خاتمے والے دن غائب کردیا جاتا ہے اور پھر دو دن بعد اس کی شہادت کی خبر اخبار میں شائع ہوتی ہے۔

فلم میں غائب کیے جانے والے نوجوان کی حاملہ بیوی کو دکھایا گیا ہے جو اپنے شوہر کی واپسی کی منتظر ہوتی ہے اور اس دوران ان کے موبائل سگنل بند ہونے سمیت ان کے گھر کی بجلی بھی بند کردی جاتی ہے۔

لاپتا ہونے والے شوہر کا انتظار کرتی حاملہ بیوی اور ان کی بوڑھی والدہ چند دن تک بیٹے کی راہ دیکھتی ہیں مگر وہ واپس نہیں آتا اور پھر ایک دن اخبار میں اس کی شہادت کی خبر شائع ہوتی ہے۔

لاپتا ہونے والے کشمیری نوجوان کی شہادت کی خبر اس وقت شائع ہوتی ہے جب ایک رات قبل ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے۔

فلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ’آرٹیکل 370‘ کے خاتمے کے وقت کس طرح بھارتی حکومت اور فوج نے پوری وادی کشمیر کو جیل اور چھاؤنی میں تبدیل کرکے کشمیری عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔

’آرٹیکل 370‘ نامی مختصر فلم کی ہدایات ابراہیم بلوچ نے دی ہیں جب کہ مدیحہ مجید نے اسے پروڈیوس کیا ہے۔

فلم میں مریم نفیس، غزالا کیفی، عبدالمقیت خان اور عارب نے کردار ادا کیے ہیں۔