نیب نے شریف فیملی کے ملازم اور چیف فنانشل افسر (سی ایف او) محمد عثمان کو شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کرلیا۔
نیب حکام نے بتایا کہ زیر حراست ملزم کو جسمانی ریمانڈ کے لیے کل (پیر) کو لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
نیب نے ملزم محمد عثمان پر تقریباً 7 ارب کی بالواسطہ و بلا واسطہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
اس حوالے نیب نے مزید بتایا کہ محمد عثمان 2005 میں شریف گروپ آف کمپنیز کو جوائن کیا اور وہ اس وقت سے شریف فیملی کا سب سے زیادہ قابل اعتماد ملازم ہے۔
لاہور نیب نے الزام لگایا کہ ملزم محمد عثمان شہباز شریف فیملی کے کالے دھن کو سفید کرنے میں ملوث تھا اور ملزم کو متعدد کال اپ نوٹسسز ارسال کیے لیکن وہ شامل تفتیش نہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ محمد عثمان شہباز شریف، سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کے لیے منی لانڈرنگ کرتا تھا جبکہ شریف فیملی کے بے نامی دار اور بے نامی کمپنیوں کو بھی دیکھتا تھا۔
نیب کے مطابق شریف فیملی کےلیے قاسم قیوم کے ذریعے جعلی ٹرانزیکشن کا مکمل بندوبست ملزم محمد عثمان نے ہی کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دیگر شریک ملزمان محمد طاہر نقوی، مسرور انور، فضل داد عباسی، شعیب قمر اور راشد کرامت نے دوران تفتیش ملزم محمد عثمان کے کلیدی کردار کا اقرار کیا اور بتایا کہ محمد عثمان کی ہدایات پر ہی وہ تمام رقوم کا ہیر پھیر کرتے رہے۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ ساتھ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے خلاف بھی تحقیقات کر رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ کئی مرتبہ نیب کے سامنے بھی پیش ہوچکے ہیں۔
اسی تحقیقات کی روشنی میں نیب حکام کی درخواست پر ان کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا جبکہ انہیں ایک مرتبہ بیرون ملک جانے سے بھی روکا گیا تھا۔
تاہم بعد ازاں اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا تھا اور لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔
ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ نیب کی ٹیم حمزہ شہباز کو صرف آمدنی سے زائد اثاثے کے کیس میں نہیں بلکہ مبینہ منی لانڈرنگ میں ثبوت کی بنیاد پر گرفتار کرنے پہنچی تھی۔
اس سارے معاملے پر نیب ذرائع نے بتایا تھا کہ شہباز شریف کے اہل خانہ کی جانب سے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے ثبوت ملنے کا انکشاف ہوا، جس کی بنیاد پر حمزہ اور سلیمان شہباز کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ نیب کو منظم مبینہ منی لانڈرنگ کی چونکا دینے والی اسکیم کا پتہ چلا، جس کے ذریعے شہباز شریف کے اہل خانہ کے اراکین نے حالیہ برسوں میں غیرقانونی دولت بنائی اور یہ سب اس وقت کیا گیا جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ نیب کو کرپشن اور منظم مبینہ منی لانڈرنگ کے ذریعے 85 ارب روپے مالیت کے اثاثوں کا پتہ چلا ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملنے والے ثبوت ناقابل تردید ہیں اور شریف خاندان کے مختلف ارکان منظم مبینہ منی لانڈرنگ اور غیر قانونی دولت بنانے میں ملوث ہیں۔
حمزہ شہباز کی جانب سے 2003 میں ظاہر کیے گئے اثاثے 2 کروڑ روپے سے کم تھے تاہم ان کے والد کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ان کی ذاتی دولت مبینہ طور پر 41 کروڑ (تقریباً 2 ہزار فیصد) سے زائد بڑھ گئی تھی۔
اسی سلسلے میں نیب نے حمزہ شہباز سے متعلق نیب کی جانب سے کچھ قریبی ساتھیوں اور سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے دوران تفتیش کرپش اور مبینہ منی لانڈرنگ کا پورا طریقہ بتایا تھا۔
ساتھ ہی لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار 2 افراد قاسم قیوم اور فضل داد کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔