چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ نیب سرکاری افسران سے عزت واحترام سے پیش آئے۔ دھمکی آمیز سلوک نہ کرے۔
پارلیمانی پبلک آکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین نورعالم خان کی زیرصدارت اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔
اجلاس شروع ہوا تو کمیٹی روم میں لگے مائیک خراب نکلے۔ چئیرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ابھی تو کام کروایا ہے۔ کوئی بھی مائیک کام نہیں کررہا، اس سے تو پرانے ٹھیک تھے۔ حسین سید کا کہنا تھا کہ یہ نئے پاکستان کی طرح ہوگئے ہیں۔
پی اے سی میں پاک چائنہ فرٹیلائزرلیمیٹڈ کی نجکاری کا معاملہ زیرغورآیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاک چائنہ فرٹیلائزر لیمیٹڈ کی 1992 میں نجکاری ہوئی۔ پاک چائنہ فرٹیلائزرلیمیٹڈ کے نوے فیصد شئیر فروخت کئے گئے۔ پاک چائنہ فرٹیلائزر لیمیٹڈ کا معاملہ ثالثی عدالت میں چلا، 1997میں ہمارے حق میں فیصلہ آیا۔ بقایا رقم پرچودہ فیصد مارک آپ اور بقایا مارک آپ مزید دس فیصد ملنا طے پایا۔
آڈٹ حکام نے کہا کہ کل پرنسپل رقم 18کروڑ 80لاکھ روپے جبکہ مارک اپ 74 کروڑ روپے اور مارک آپ پر مارک اپ دو ارب روپے بنتا ہے۔ کل ملا کر یہ رقم تین ارب روپے بنتی ہے اور دس فیصد شئیر بھی حکومت کے ہیں۔ چالیس فیصد رقم لے کر پلانٹ پارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔
رکن کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا کارنامہ ہے کہ ایک ہزار ڈالروالی کمپنی ایچ ای سی کمپنی کو فروخت کر دیا گیا۔ سینٹ کی فنانس کمیٹی نے اس کی نجکاری رکوائی۔
سینیٹرمحسن عزیز کا کہنا تھا کہ بورڈ ممبران اور چئیرمین اجلاس میں شرکت کے لئے آتے ہیں تو گاڑی سے لے ہوٹل تک مراعات لی جاتی ہیں۔ بورڈ ممبران کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے جس کے بعد کمیٹی نے پبلک سیکٹر کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرکا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔
نیب حکام نے کہا کہ پی آئی ڈی سی کی سرگودھا میں 8 سو کینال اراضی خریدی گئی تھی۔ دو کروڑ کی ریکوری پی آئی ڈی سی کو کردی ہے۔ اس معاملے میں بارہ ملزمان ملوث تھے۔
کمیٹی نے استفسار کیا کہ بورڈ کے خلاف نیب نے کوئی کارروائی کی؟
سینیٹرسلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹرکمپنیوں کی ضرورت سے متعلق نظرثانی کرنے کی حکومت کو ہدایت جانی چاہیے۔ یہ کمپنیاں ملک کے خزانے پر بوجھ ہیں۔ حکومت ان کمپنیوں کو ختم کرے۔
نیب حکام نے بتایا کہ پی آئی ڈی سی بورڈ کے دو ممبران بھی ملزمان میں شامل ہیں۔
چئیرمین کمیٹی نورعالم کا کہنا تھا کہ کابینہ بھی اگرکوئی غلط فیصلہ کرتی ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ سیکرٹری پاور کو ایک فیڈر کے نقصانات کا پتا تھا مگر متعلقہ کمپنی کے سربراہ کو علم نہیں تھا۔
نیب حکام کا کہنا تبا کہ نیا نیب قانون پچاس کروڑ سے کم کی کرپشن کے معاملہ پر تحقیقات نہیں کرسکتا۔
چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ کیا کرسکتے ہیں، کس طرح سے معاملہ نیب کو جاسکتا ہے؟
نزہت پٹھان کا کہنا تھا کہ نیب ماہرہے خود ہی کیس کو اپنے دائرہ کار میں لانے کے لئے رقم پوری کرلے گا۔
آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ کیس کی انکوائری ایف آئی اے کے پاس رہنے دیں وہ کافی کام کرچکے ہیں۔
چئیرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ نیب سرکاری افسران سے عزت واحترام سے پیش آئے۔ دھمکی آمیز سلوک نہ کرے۔ نیب کو جس کیس میں معاونت کی ضرورت ہوتی ہے افسران کوعزت و احترام سے بلایا جائے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ نیب کو اس حوالے سے مسودہ میں بنا کر دینے کو تیارہوں۔
فرنیچرپاکستان میں جعلی ڈگریوں پرتقرریوں کے معاملہ پر ایف آئی اے حکام نے بتایا کِہ یہ انکوائری اب شروع ہوئی ہے۔
چئیرمین پی اے سی کا کہنا ہے کہ جس نے تقرریاں کی ایف آئی آر میں اس کا نام بھی ڈالیں اور اس سے ریکوری کریں۔ اس انکوائری کیلئے ایک ہفتہ دیتے ہیں۔
این ایف ایم ایل میں 381 خلاف ضابطہ تقرریوں کے معاملے پرسیکریٹری صنعت و پیداوارنے بتایا کہ 2007 میں گولڈن شیک ہینڈ ہوا۔ 2012 میں 417 لوگ دوبارہ ہائیر کر لیے گئے۔ یہ لوگ اب دس سالوں سے کنٹریکٹ پر ہیں۔
چئیرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ اسکی انکوائری ایک ماہ میں مکمل کریں۔
این ایف ایم ایل میں 14 کروڑ 82 لاکھ کا کنٹریکٹ اور ریگولر ملازمین کو بونس دینے کے معاملے پرایف آئی اے حکام نے بتایا کہ خسارے میں جانیوالی کمپنی نے اپنے ملازمین کو بونس دے دیے۔
پی اے سی نے معاملے پر ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئےریکوری کی ہدایت کردی۔
پی اے سی میں انکشاف ہوا ہے کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نورعالم خان کے نام پریوٹیلیٹی اسٹورزسے آٹا نکلوایا ہے۔
چئیرمین کمیٹی نے یوٹیلٹی اسٹورزحکام سے پوچھا کہ آپ کے پشاورزون میں کسی کومیں نے آٹا نکالنے کا نہیں کہاَ، کس نے میرے نام پر آٹا نکالا۔ اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ یوٹیلیٹی اسٹورزغریبوں کیلئے ہے میں اس کو استعمال نہیں کرنا۔
سیکریٹری انڈسٹری اس معاملے کو چیک کریں۔ پی اے سی اجلاس میں ای ڈی بی حکام اورکارمینوفیکچررزکی بریفنگ دی گئی۔
مختلف کارمینوفیکچررزکمپنیوں کے سی ای اوز کا کمیٹی میں عدم شرکت پر چیئرمین پی اے سی برہم ہو گئے اور کہا کہ کار مینوفیکچررز آڈیٹرجنرل آفس کو ڈاکومنٹس نہیں فراہم کر رہے۔ یہ مینوفیکچررز سیاسی رہنماؤں کیساتھ تصویریں بنا کرہمیں کیادکھاناچاہتے ہیں۔ ہم حکومت سے ریکوسٹ کریں گے کہ گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دی جائے۔
آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ ہم نے 11 کمپنیوں سے ڈیٹا وصول کرنا تھا جنہوں نے ہمیں مکمل ڈیٹا نہیں دیا۔
چئیرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ اگراگلی میٹنگ سے پہلے ڈیٹا نہیں دیا تو ہم آپ کا کیس نیب کو بھجوا دیں گے۔ کارمینوفیکچررز اپنے آپ کو قانون سے بالاترکیوں سمجھتے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ ہماری میٹنگ کی پروسیڈنگزکوعدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا، ہم گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کرا سکتے ہیں۔ڈالر وغیرہ کا بہانہ بنا کر آپ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ گیم کھیل رہے ہو۔
پی اے سی نے کارمینوفیکچررز، چیئرمین ایف بی آر، وزارت تجارت کے نمائندگان کو آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔ پی اے سی نے، ایس ای سی پی، سٹیٹ بنک اور مثابقتی کمشین آف پاکستان کے اعلی حکام کو طلب کرلیا۔
پی اے سی نے ایک ہفتے بعد دوبارہ اجلاس طلب کرلیا جس میں کار مینوفیکچررز کو بھی طلب کیا ہے۔