نواز شریف کو واپس لانے کیلئے تمام اقدامات کیے جائیں گے، وفاقی کابینہ

وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے تمام اقدامات کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے رعایت کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوگئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لیا گیا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘کابینہ نے نوٹ کیا کہ نوازشریف حکومت کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی گئی رعایت کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں’۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے اجلاس کو بتایا گیا کہ ‘العزیزیہ ریفرنس کیس میں 29 اکتوبر 2019 کو نواز شریف کو 8 ہفتوں کے لیے ضمانت ملی اور 16 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے نام ای سی ایل سے نکال کر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی’۔

کابینہ اجلاس میں کہا گیا کہ ‘اس حوالے سے نوازشریف اور شہباز شریف دونوں نے شخصی ضمانت دی اور وطن واپسی، میڈیکل رپورٹس جمع کرانے اور حکومت کے نمائندے کی جانب سے میڈیکل رپورٹس کے معائندے پر اعتراض نہ کرنے اور مکمل تعاون کی ضمانت دی تھی’۔

بریفنگ کے دوران کہا گیا کہ ’23 دسمبر 2019 کو نواز شریف کے وکلا نے ضمانت میں توسیع کے لیے درخواست دی، جس پر میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا اور فروری 19، 20 اور 21 فروری کو سماعت کے لیے تین مواقع فراہم کیے گئے’۔

وفاقی کابینہ میں کہا گیا کہ ‘سماعت میں نواز شریف خود بھی پیش نہیں ہوئے اورنہ کوئی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی جبکہ 27 فروری کو ضمانت میں توسیع کی درخواست کو مسترد کردیا گیا’۔

برطانیہ سے متعلق معاملات پر کہا گیا کہ ‘نواز شریف کی روانگی کے وقت برطانوی حکومت کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا، جس کے بعد 2 مارچ کو پنجاب حکومت کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا گیا’۔

نواز شریف کی برطانیہ میں طوالت پر کہنا تھا کہ ‘کووڈ-19 کی وجہ سے مختلف ملکوں کی طرح برطانیہ کے وزٹ ویزوں میں بھی توسیع کی گئی تھی اور نواز شریف نے وزٹ ویزے میں توسیع کے تحت وہاں موجود ہیں’۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ ‘نواز شریف کے وکلا نے ان کی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے جس کا تحریری فیصلہ آناباقی ہے’۔

وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ ‘نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے، وفاقی کابینہ نے اس امر کا اعادہ کیا کہ حکومت کی جانب سے قانون کے یکسان اطلاق کے حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی’۔

اجلاس کے دوران وزیراعظم اور کابینہ اراکین نے کہا کہ ‘این آر او کے حوالے سے حکومت بلیک میل نہیں ہوگی’۔ عمران خان نے کہا کہ ‘ماضی میں دیے جانے والے این آر او کی وجہ سے ملک کے قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہوا اور ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے’۔ خیال رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے 21 اگست کو کہا تھا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے برطانوی حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو واپس وطن بھیجا جائے کیوں انہیں واپس لانا ضروری ہوگیا ہے۔

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر (بیرونِ ملک) چلے گئے تھے انہوں نے ڈاکٹروں اور اپنے ٹیسٹ کو دھوکا دیا یہ تو ماسٹر ہیں اس چیز کے اور جاکر بیٹھ گئے لندن میں جہاں علاج تو کیا ایک ایکسرے تک تو کیا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضمانت کے خاتمے کے بعد انہوں نے توسیع کی درخواست کی جس پر حکومت پنجاب نے ان سے میڈیکل رپورٹس طلب کیں لیکن چونکہ برطانیہ میں تو اس طرح کی چیزیں ہوتی نہیں اس لیے رپورٹس نہیں بھجوائی گئیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات کاکہنا تھا کہ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ جس طرح انہوں نے ہمارے قانون کا مذاق اڑایا، اپنی بیماری کو بہانہ بنا کر ملک سے فرار اختیار کی اب انہیں واپس آنا چاہیے اور الزامات کا عدالتوں میں سامنا کریں، وہ وہاں پر علاج کروانے کے بجائے چائے پی رہے ہیں کافی پی رہے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو کے ساتھ رابطہ کررہے ہیں وہاں بیٹھ کر سیاست شروع کی ہوئی ہے جیسے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو جبکہ ضمانت پر گئے ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نیب سے درخواست کریں گے وزارت خارجہ کے ذریعے حکومت برطانیہ سے انہیں واپس بھیجنے کی درخواست کی جائے، کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں ان کو واپس لانا اب ضروری ہوگیا ہے اور اس سلسلے میں جو حکومت کا فرض بنتا ہے وہ ادا کیا جائے گا۔

وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ وہ یہاں آ کر عدالتوں کے سامنے پیش ہوں اور وہی ان کا فیصلہ کریں گی، قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا جبکہ ہماری کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور نواز شریف کو اب واپس لایا جائے گا۔