وزیراعظم نے کہا جب نواز شریف کا ایشو سامنے آیا تو ماحول ایسا بن گیا کہ پہلے ڈاکٹروں کی رائے آئی کہ وہ بچیں گے نہیں ان کی جان خطرے میں ہے جس پرکابینہ میں 6 گھنٹے بحث ہوئی کہ کیاکیا جائے، دوسری جانب عدالت نے کہ دیا کہ انہیں کچھ ہوا تو حکومت ذمہ دار ہوگی۔
اے آر وائے نیوز کے اینکر ارشد شریف کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈ رکھے، شہباز شریف نے عدالت کو ضمانت دی اور وہ باہر چلے گئے، ایک نواز شریف یہاں تھے اور ایک جیسا باہر دییکھا گیا اب ہم پشیمانی محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے وہاں سیاست بھی شروع کردی ہے اوربظاہر دیکھنے میں بیمار بھی نہیں لگتے۔
عمران خان نے نواز شریف کو این آر او دینے کا تاثر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کوشش کی جو ہم کرسکتے لیکن جو ہمارے سامنے پیش کیا گیا کہ وہ مرسکتے ہیں شاید لندن پہنچ بھی نہ سکیں اور اس صورت میں ہم پر ذمہ داری آنی تھی اسلیے ہم نے جذبہ خیر سگالی کے تحت بھیجا۔
تاہم اب جب وہ سیاست دانوں سے رابطے کررہے ہیں،ہم سب پچھتا رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ہمارے سے غلطی ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے رابطے باہر ہیں لیکن وہ میرے لیے مسئلہ نہیں تھا، اگر طبی رائے میں یہ بات نہ کہی جاتی کہ ان کی جان خطرے میں ہے تو میں کبھی باہر جانے کی اجازت نہ دیتا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ایف اے ٹی ایف کے معاملے اسمبلی میں جو ڈرامہ ہوا اس میں آپ کو معلوم ہوگا کہ اگر کسی حکومت نے کوئی اسٹینڈ لیا تو کبھی کسی اپوزیشن نے حکومت کو اتنا زیادہ بلیک میل نہیں کیا جتنا اس حکومت نے ہر مرحلے پر کیا۔
اپوزیشن نے حکومت کو صرف اس لیے بلیک میل کیا کہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں این آر او دیا جائے۔
ایف اے ٹی ایف پر اپوزیشن کے این آر او مانگنے کی بات پر انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ ہمیں 2 کام کردو ایک منی لانڈرنگ کا قانون اس میں سے نکال دو دوسرا نیب کی قبر کھود کر اسے دفنا دیا جائے تاکہ ہم احتساب اور منی لانڈرنگ سے بچ جائیں۔
ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز سینیٹ سے منظور کروانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے ہم پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا رہے ہیں جس میں انہوں نے اگر ہمیں شکست دی تو ملک کے بلیک لسٹ میں جانے کے ذمہ دار یہ لوگ ہوں گے۔
وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تاریخ میں کبھی بھی طاقتور کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش نہیں کی گئی اور ہمیشہ 2 قانون رہے ایک طاقتور دوسرا کمزوروں کے لیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 1985 کے بعد جنرل ضیاالحق نے پاکستان پیپلز پارٹی کو باہر کرنے کے لیے غیر جماعتی انتخابات کروائے جس کے نتیجے میں لوگ منتخب ہو کر آگئے اور انہیں پارٹی میں پیسے دے کر شامل کروانا تھا، اس وقت سے پاکستان میں رشوت شروع ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت میں 2 مرتبہ آصف زرداری کو جیل بھجوایا گیا، جب ان کی حکومت ختم ہوجاتی تھی وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچ جاتے تھے یعنی جب آپ طاقت میں ہیں تو جو مرضی کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح ان کے کرپشن کیسز کو چھوڑ دیا جائے لیکن دنیا ادھر ادھر ہوجائے، میری حکومت چلی جائے وہ مجھے منظور ہے لیکن ان کو اگر میں نے کرپشن کیسز سے نکال دیا میں ملک سے غداری کروں گا، مجھے اللہ کو جواب دینا ہے، اپنی آخرت ککا سوچنا ہے۔
انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف نے ملک پر سب سے بڑا ظلم کیا کہ نواز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز میں استثنیٰ دینے کے بعد باہر بھجوا کر اور آصف زرداری کے 6 کروڑ ڈالر سوئٹزر لینڈ میں تھے، ان کیسز پر اربوں روپے خرچ ہوئے جب کیسز میچیور ہونے لگے تو جنرل مشرف نے اپنی کرسی بچانے کے لیے این آر او دے دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جب اپوزیشن میں آئی اس نے مک مکا کرلیا، اس مک مکا اور جنرل مشرف کے این آر او کی وجہ سے پاکستان پر 4 گنا زیادہ قرضہ چڑھایا جس کی آج ہم قیمت ادا کررہے ہیں۔
عمران خان نے ایک بار پھر دہرایا کہ جو مرضی ہوجائے یہ جتنی مرضی بلیک میل کریں، ان سب کا جب تک احتساب نہیں ہوگا یہ ملک آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔