پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کو 5 ماہ ہونے والے ہیں اور تمام تر توجہ کووڈ 19 کی روک تھام پر مرکوز ہیں، مگر اس کے نتیجے میں ملک میں بچوں کے لیے زندگی بھر کے لیے معذور کردینے والا مرض پولیو بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
دنیا کے صرف 2 ممالک میں پولیو وائرس موجود ہے اور ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ رواں سال کے دوران اب تک پولیو کے 60 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سے 21 خیبرپختونخوا، 20 سندھ، 15 بلوچستان اور 4 پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔
متعدد فنکار، مذہبی شخصیات اور دیگر معروف افراد بار بار آگے آکر عوام میں پولیو وائرس کے خطرات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح بار بار ویکسینیشن بچوں کو اس معذور کردینے والی بیماری سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔اداکارہ مہوش حیات نے حال ہی میں اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ میں انسداد پولیو ٹیموں کے بارے میں بات کی جو پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ کا بھی حصہ ہیں۔
مہوش حیات نے کہا ‘کورونا وائرس ہیلپ لائن 1166 درحقیقت پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کی بھی ہیلپ لائن ہے، اس ٹیم نے پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی ہمارے خاندانوں کی اچھی صحت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی زندگیوں کو خطرے یں ڈالا’۔
انہوں نے مزید کہا ‘کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے خطرناک حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کی کوئی ویکسین نہیں، تاہم پولیو وائرس کی ویکسین موجود ہے، جو ہمارے بچوں کے صحت مند مستقبل کو یقینی بناسکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ پولیو وائرس سمیت دیگر خطرناک امراض کے خلاف ویکسنیشن کرائی جائے’۔
اداکار فہد مصطفیٰ نے بھی ملک میں گزشتہ 5 ماہ کے دورا پولیو ورکرز کی کورونا وائرس کے اثرات کو کم از کم کرنے کی کوششوں پر بات کی۔
پاکستان میں انسداد پولیو مہم کئی ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو رہی ہے اور فہد مصطفیٰ نے عوام پر ٹیموں کی معاونت کے لیے زور دیا تاکہ صحت مند پاکستان کے حصول کے لیے بچوں کو پولیو اور دیگر خطرناک امراض کے خلاف ویکسینشن کے عمل سے گزارا جاسکے۔
انہوں نے کہا ‘ایک والد کی حیثیت سے میں ہمیشہ اپنے بچوں کی بروقت پولیو ویکسنیشن یقینی بناتا ہوں، یہ بطور پاکستانی ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بروقت ویکسینشن کرائی جائے تاکہ ہمارا ملک مستقبل میں پولیو جیسے خطرناک بیماری سے پاک ہوجائے’۔
دونوں اداکار فلم لوڈ ویڈنگ میں اکٹھے ہوئے تھے جس میں مہوش حیات نے ایک ویکسین ورکر کا کردار ادا کیا تھا اور فلم میں ویکسین سے انکار کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤنز کے باعث لگ بھگ 4 ماہ کے وقفے کے بعد 20 جولائی سے انسداد پولیو مہم دوبارہ شروع ہورہی ہے۔
اس مہم کے دوران احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ایمرجنسی آپریشنز سینٹر سندھ کے ترجمان نے حال ہی میں بتایا تھا کہ ٹیموں کے لیے عالمی ادارہ صحت کے تجویز کردہ تمام احتیاطی اقدامات کیے جائیں گے اور ورکرز کو سینی ٹائزرز، فیس ماسکس اور دستانے فراہم کیے جائیں گے، تو والدین کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
گزشتہ دہائی کے دوران دنیا بھر میں 3 ارب بچوں کو 10 ارب پولیو ویکسین ڈوز فراہم کیے گئے جس کے نتیجے میں ایک کروڑ کیسز کی روک تھام ممکن ہوسکی۔
خیال رہے کہ پولیو کا کوئی علاج موجود نہیں بلکہ اس سے تحفظ ویکسین سے ہی ممکن ہے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کو ہر بار ویکسین کی ڈوز فراہم کرنے سے وائرس کے خلاف تحفظ بڑھتا ہے۔