لاہور ہائی کورٹ نے مونس الہی کے خلاف ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کا درج مقدمہ خارج کردیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے لانڈرنگ مقدمے کے اخراج کے لیے مونس الہیٰ کی دائر درخواست منظورکی۔ جسٹس اسجد جاوید گھرال نے مونس الہی کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
اس سے قبل عدالت نے اخراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تو وکیل مونس الٰہی امجد پرویزایڈووکیٹ نےعدالت سے کہا کہ عدالت کوئی مختصرحکم جاری کرے جس پر جسٹس اسجد جاوید گھرال نے کہا کہ آپ کے ریکارڈ اور تحریری دلائل کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے۔ پڑھنے کے بعد بہت کچھ کلیئر کچھ جاتا ہے۔
لاہورہائیکورٹ میں ایف آئی اے میں درج منی لانڈرنگ مقدمے کے اخراج کے لیے ق لیگ کے رہنما مونس الہیٰ کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں درخواست گزار کی جانب سے امجد پرویز ایڈوکیٹ، وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ اورمونس الہی کے مقدمہ کا تفتیشی افسر بھی پیش ہوا۔
سماعت کے آغاز میں ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ نے کہا کہ 29 ستمبر کو 13 ہزار 144 صفحات کا چالان جمع کروا دیا ہے، تمام ڈیٹا کی سافٹ کاپی یو ایس بی میں کر کے عدالت میں بھی جمع کروا دی ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے میڈیا پر سن لیا تھا کہ چالان جمع ہو گیا ہے اس لئے 14 فیصلوں کے حوالے لےکرآیا ہوں۔
جسٹس اسد جاوید گھرال نے استفسارکیا کہ بنک اگر خود مدعی نہیں تو آپ کیسے مقدمہ درج کر سکتے ہیں؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بنک والے خود ہی جرم کرنے والے ہیں تو کیس وہ خود مقدمہ درج کروائیں گے؟
عدالت نے استفسارکیا کہ کس کے حکم پرانکوائری شروع کی گئی؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت کی منظوری سے انکوائری شروع ہوئی۔ وفاقی کابینہ نے انکوائری شروع کروائی۔ شوگر انکوائری کمیشن کی روشنی میں کیس شروع ہوا۔
عدالت نے پھراستفسار کیا کہ جہانگیر ترین وغیرہ کیخلاف مقدمہ درج ہوا تھا کیا اس انکوائری کے بعد مقدمہ درج ہوا؟
وکیل مونس الٰہی امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ جہانگیر ترین کیخلاف جو مقدمہ درج ہوا تھا اس کا چالان ابھی تک پیش نہیں ہوا مگر مونس کا چالان پیش کردیا گیا۔ جہانگیر ترین کیخلاف درج مقدمہ کا واقعہ 2020ء کا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے ایکشن میٹرکس جاری کیا تھا جس پرجسٹس اسجد جاوید گھرال نے کہا کہ یہ جو آپ بتا رہے ہیں یہ تو ٹی او آرز ہیں۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ 2007ء/2008ء میں شوگر ملز قائم کرنے پر پابندی تھی اسکے باوجود آر وائی کے شوگر ملز قائم کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ وزیراعلی پنجاب نے شوگرملز کیلئے این او سی جاری کیا، لاہور ہائیکورٹ نے 2 بار تصدیق کی کہ این او سی درست جاری ہوا۔
وکیل مونس الٰہی نے دلائل دیے کہ 2007ء میں کم تنخواہ دار ملازمین کے نام پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا ہے۔ مونس الٰہی کیخلاف الزام میں منسوب تمام کمپنیوں کی چھان بین نیب پہلے ہی کر چکا ہے۔ عدالت کی منظوری کے بعد نیب نے مونس کیخلاف ریفرنس بند کیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب کے قانون کو فوقیت حاصل ہے اور پبلک آفس ہولڈرز کیخلاف الزامات کی تحقیقات کرتا ہے۔ اس کیس میں بنک مدعی نہیں، قومی خزانے کو نقصان نہیں ہوا۔ اس کیس میں کوئی پرائیویٹ شخص بھی مدعی نہیں ہے۔ اس حکومت نے بلیک میل کرنے اور ہراساں کرنے کیلئے مونس الٰہی کیخلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ موجود حکومت نے سیاسی انجینئرنگ کیلئے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔
عدالت نے استفسارکیا کہ آروائی کے شوگر ملز کا این او سی کب جاری ہوا؟ جس پر اسد علی باجوہ نے جواب دیا کہ میں اس سے پہلے بتا دوں بنکنگ جرائم کی دفعات لاگو ہوتی ہیں۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے سوالوں کے جواب دیں پھر جتنا مرضی بولیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ مونس الٰہی نے اس کیس میں عبوری ضمانت لی ہوئی ہے اور ضمانت منسوخی کیخلاف ایف آئی اے کی درخواست کل کیلئے مقرر ہے۔ یہ کیس دو رکنی بنچ سن سکتا ہے، سنگل بنچ کو اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔ نیب کے کیسز بھی دو رکنی بنچ کے سامنے سماعت کیلئے پیش کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ وہ کیسز بھی غلط آرہے ہوتے ہیں، سنگل بنچ بھی سن سکتا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازبھٹی محکمہ صحت میں گریڈ 2 کا ملازم تھا، مظہر عباس اس وقت طالبعلم تھا انکے اکائونٹس میں بڑی رقوم آئیں۔
عدالت نے استفسارکیا کہ جب یہ وقوعہ ہوا کیا تب منی لانڈرنگ ایکٹ موجود تھا؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 19 اپریل 2010ء کو مظہرعباس نے 6 لاکھ 30 ہزار شیئرز حاصل کیے۔ 2011ء میں اور 2021ء تک مظہرعباس کے شیئرز چلتے رہے ہیں۔
عدالت نے پوچھا کہ مظہرعباس اور محمد نواز نے شیئرز کس کو بیچے؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اعوان فیملی، ناصرہ رحمان، ارم امین، ساجدہ سہیل، رضااعوان، سنبل ریحان کو شیئر بیچے۔ واجد بھٹی، ارشد اقبال کو بھی شیئرز بیچے گئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2016ء میں مونس الٰہی کو آخرکار آ کر یہ شیئرز منتقل ہوئے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ کمپنیوں کے ذریعے شیئرزخریدے گئے، کیسکیڈ ٹیکس، ایکس کیپٹل کمپنیوں سے مونس الٰہی کی بھابھی نے شیئرز خریدے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکس کیپٹل کمپنی مونس الٰہی کی بھابھی کے نام پر ہے، کیسکیڈ ٹیکس مونس الٰہی کے نام پر ہے۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے پوچھا کہ کیا ان دونوں کمپنیوں کی انکوائری نیب نے کی تھی؟ آر وائی کے شوگر ملز کس کے نام پر ہے؟
امجدپرویزایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ نیب نے ان دونوں کمپنیوں کی انکوائری کی۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب کا مدعا یہ نہیں تھا کہ کیسکیڈ اورایکس کیپٹل کی انکوائری کی جائے، ٹرائل کورٹ میں چالان پیش ہونے کے بعد یہ درخواست قابل سماعت نہیں رہی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جب یہ درخواست دائر ہوئی تھی تب چالان ٹرائل عدالت میں جمع ہوا تھا؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے تو روزعدالتوں میں یہی دیکھا ہے کہ جب عدالت صرف نوٹس کرے تو وہ سماعت کیلئے منظور نہیں ہوتی۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے کہا کہ یہ درخواست سماعت کیلئے منظور ہوئی تھی تو ہی آپ کو نوٹس جاری کئے تھے۔
وکیل مونس الٰہی نے کہا کہ عدالت نے ہراساں نہ کرنے کا حکم بھی جاری کررکھا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر یہ کیس سماعت کیلئے منظور ہوا ہوتا تو میں تحریری بیانات بھی جمع کرواتا۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ اب چالان جمع ہونے کے بعد دوبارہ قابل سماعت ہونے کا اعتراض اٹھائیں گے؟ چلیں آپ کا اعتراض نوٹ کر لیا ہے، آگے چلیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ مظہرعباس اور محمد نواز نے شیئرز منتقل کئے۔ جس پرجسٹس اسجد جاوید گھرال نے پوچھا کہ ان کا درخواست گزار سے کیا تعلق ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ اعوان فیملی نے کہا ہو کہ آر وائی کے شوگر ملز درخواستگزار کی ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اعوان فیملی کہتی ہے کہ انہوں نے شیئرز غیر ملکی سرمائے سے خریدی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیسکیڈ اورایکس کیپٹل نے جتنے شیئرز خریدے وہ بنک کے ذریعے خریدے۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے سوال کیا کہ کیا کراس چیک کے ریکارڈ ایف آئی اے کو پیش کیے گئے؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سارا ریکارڈ ایف آئی اے کو دیا گیا ہے، جس پرتفتیشی افسر نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شیئرز خریدے اور بیچے گئے۔ شیئرز کو کمپنیوں کو منتقل کر کے مونس کی اہلیہ اور اہلخانہ کے نام منتقل کئے گئے۔ 40 فیصد ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے ابھی مزید تحقیقات جاری ہیں۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے پوچھا کہ بنکنگ کا جرم کیسے بنتا ہے؟ کیا درخواست گزارنے ان اکائونٹس میں کوئی ترسیلات کی ہوں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جتنی بھی رقم کی ترسیلات ہوئیں وہ مونس الٰہی کی کمپنیوں میں ہی گئیں۔ جن لوگوں نے جعلی اکائونٹس بنائے انکے دستخط موجود نہیں ہیں۔
عدالت نے پوچھا کہ 6 جعلی اکاؤنٹس میں 2 اکاؤنٹ ہولڈرز کے دستخط درست ہیں۔ اگر جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے تو بنک والوں کو ملزم بنا دیں۔ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بنا دیا بنک والوں کو ملزم۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آخری بات بتائیں اس وجہ سے کسی ادارے، قومی خزانے یا کسی انفرادی شخص کو نقصان ہوا؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی ایسا سورس موجود ہی نہیں ہے، شیئرز میں رقم منتقل ہوتی رہی ہے جبکہ تفتیشی افسر نے کہا کہ معاملہ ابھی زیرتفتیش ہے۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے کہا کہ ابھی معاملہ زیر تفتیش ہے تو آپ نے چالان جمع بھی کروا دیا ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ نے دلائل دیے کہ کمپنیوں کیلئے جتنی ترسیلات ہوئیں وہ قانونی نہیں ہیں۔
وکیل مونس الٰہی امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نقصان کیا ہوا ہے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔