مولانا طارق جمیل سٹور
————
آجکل ہر کس و ناکس مولانا طارق جمیل صاحب کی جانب سے بنائے گئے ایک سٹور پر موجود اشیاء کی قیمتوں کے حوالے سے بہت زیادہ تنقید کر رہا ھے۔
جبکہ اس کے افتتاح سے پہلے مولانا صاحب وضاحت کر چکے ہیں کہ انھیں اس عمر میں دولت کے انبار نہیں لگانے۔بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ دینی مدارس اپنے اخراجات کیلیے خود کفیل ھو جائیں اور ان مدارس دینیہ میں پڑھنے والے طالبعلم کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ھوں اور یہ مدارس صاحبان ثروت کی امداد کے محتاج بھی نہ رہیں۔اب آتے ہیں ان سٹورز پر موجود اشیاء کی زیادہ قیمتوں کی طرف تو پہلی بات تو یہ ھے کہ اتنی زیادہ قیمتیں ہیں نہیں جتنی سوشل میڈیا پر دکھائ جارہی ہیں۔اور اگر ایسا کچھ ہے بھی تو، چونکہ اس سٹور کاتعلق مولانا طارق جمیل صاحب سے ہے لہزا اس سٹور کے متعلق افواہیں پھیلانے والے دو قسم کے طبقات ہیں۔
1-دین بیزار لوگ.
2-مولانا صاحب کے نظریاتی مخالف لوگ۔
دین بیزار لوگوں کی تو ھمیشہ سے کوشش رہی ھے کہ دین کیلیے کام کرنے والے حقیقی علماءکو کسی نہ کسی طرح بدنام کیا جائے۔اور اسلام کا روشن چہرہ سامنے نہ آنے دیا جائے۔
جبکہ دینی حلقوں میں موجود وہ لوگ جن کی دکان صرف امت کے نفاق پر مبنی نظریات کے پھیلانے پر ہی چلتی ھے۔وہ ان قیمتوں پر تنقید کے بہانے اپنے حقیقی بغض کا دل کھول کر اظہار کر رہے ہیں۔
کاش ھم قیمتوں کو اس نقطہ نظر سے دیکھیں
کہ جب کسی معروف لیڈر، کھلاڑی یا شاعر کے پرانے قلم ،جوتے، ہاکی یا بیٹ کی نیلامی ھوتی ھے تو ان کے مداح اس چیز کو لاکھوں روپے میں خرید لیتے ہیں، اسے خوبصورت فریم میں بند کروا کر اپنے ڈرائینگ روم کی زینت بنا کر ہر آنے جانے والے کوبڑے فخر سے دکھاتے ہیں،
تواگر ھم اس سٹور میں موجود چیزوں کو مولانا طارق جمیل صاحب سے نسبت سمجھ کر مہنگے داموں خرید بھی لیں تو اس میں کیا ہرج ھے، جبکہ سب کو معلوم بھی ھے کہ یہ رقم دراصل دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء پر خرچ ھو گی۔تو ان اشیاء کی قیمت اگر کچھ زیادہ بھی ھے تو کیا ہرج ھے۔لہزا چونکہ یہ ایک امدادی سٹور ھے۔یہاں صاحبان ثروت اور مولانا سے پیار کرنے والے ہی آئیں گے اور خریداری کے بہانے امدادی گفٹ دیں گے، جو دین پر خرچ ھو گا۔میں تو یہ سمجھتا ھوں کہ ھم سب کو وہاں سے بطور سعادت کچھ نہ کچھ خریدنا چاہیے۔اور اگر آپ یہ سکت یا جزبہ نہیں رکھتے تو خدا را تنقید نہ کریں۔ بلکہ دینی طلباء کی امداد کے لیے یہاں سے کوئ بھی چھوٹا سا گفٹ خرید کر اپنے پاس محفوظ کر کے فخریہ طور پر لوگوں کو دکھائیں۔البتہ یہاں میں مولانا طارق جمیل صاحب کو ایک مشورہ دوں گا کہ اگر ممکن ھو تو ان اشیاء پر اپنے دستخط کردیں تاکہ ان کے مداحین ان اشیاء کو بطور سعادت اور یادگار اپنے پاس محفوظ رکھ سکیں۔
تحریر رانا علمدار حسین