اسپیشل کورٹ سنٹرل لاہور نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہبازشریف اورحمزہ شہبازسمیت تمام ملزمان کل 12 بجے طلب کرلیا۔
اسپیشل کورٹ سنٹرل لاہور میں منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہبازعدالت پیش ہوئے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف عدالت نہیں آئے۔
عدالت نے کل ملزمان کو حاضری سے استثنی دینے کی استدعا مسترد کر دی اور منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے دوپہربارہ بجے تمام ملزمان کو طلب کرلیا۔
امجد پرویزایڈووکیٹ نے عدالت سے کہا کہ کل ملزمان بھی آئیں گے یا انہیں استثنی ہو گا؟ جس پر جج اعجازحسن اعوان نے کہا کہ ظاہر ہے ملزمان پہلے آئیں گے اور وکیل بعد میں آئیں گے۔
عدالت نے کل امجد پرویز ایڈووکیٹ کو مزید دلائل کیلئے طلب کرلیا۔
اسپیشل پراسیکیوٹرفاروق باجوہ نے عدالت سے کہا کہ میرے دلائل بھی تقریبا مکمل ہیں بس کچھ حوالے پیش کرنے ہیں جبکہ ایڈووکیٹ امجد پرویز نے استدعا کی کہ اسی ہفتے میں نے بیرون ملک جانا ہے اس لیے کل کا ہی 12 بجے کا وقت مقرر کردیں۔
عدالت نے کیس کو پہلے ہفتے کے روز کیلئے سماعت کیلئے مقرر کیا تھا، امجد پرویز ایڈووکیٹ کی استدعا پر کیس کو کل سماعت کیلئے مقررکردیا۔
عدالت نے وزیراعظم شہباز شریف کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست بھی منظور کی۔
شہبازشریف اورحمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ مقدمے میں بریت کی درخواستوں پر سماعت کے آغاز میں امجد پرویزایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔
جج نے ایف آئی اے کے وکیل سے استفسارکیا کہ ملک مقصود کے کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں۔
وکیل ایف آئی اے فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ ملک مقصود کے نام پرآٹھ بینک اکاؤنٹس ہیں۔ یہ تمام تفصیلات چالان میں موجود ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے جمع نہیں کرائے گئے۔ نہ ہی شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس سے براہ راست پیسے نکلوائے گئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے حمزہ شہباز کو حاضری کے بعد جانے کی اجازت دے دی۔
وکیل حمزہ شہبازنے کہا کہ نہ کوئی کک بیکس کا نہ رشوت کا الزام ہے۔ بینکرز کو ایف آئی اے نے کیس سے ہی نکال دیا۔ بینکرز نہ گواہ ہیں نہ ملزم۔ انوسٹی گیشن رجیم چینج سے پہلے ہوئی اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کے بیانات لیے گئے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ یہ ساری تفتیش گزشتہ حکومت کی تفتیشی ٹیم نے کی۔ کسی گواہ نے شہباز شریف یا حمزہ شہباز کا نام تک نہیں لیا۔ اگر کوئی ایسا بیان آ جاٸے تو میں عدالت سے باہر چلا جاؤں گا۔
ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز رمضان شوگر مل کے شئیر ہولڈراورمالک ہیں۔
جج نے استفسارکیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ پیسے کا لین دین اور پیسے ٹرانسفر حمزہ شہباز کے کہنے پر ہوئے؟ جس پر فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ اس بات کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ جن لوگوں کے اکاونٹس کھلواٸے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پیسے کہاں سے آٸے یہ معلوم نہیں۔
وکیل ایف آٸی اے نے کہا کہ جن کے اکاؤنٹس ہیں وہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔ مرحوم گلزار کا اکاؤنٹ بھی رمضان شوگر ملز کی انتظامیہ آپریٹ کرتی رہی۔
جج اعجازحسن اعوان نے پراسیکیوٹر سے استفسارکیا آپ تحریری طورپر یہ سب لکھ کر دے سکتے ہیں؟ جس پر فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ مجھے تحریری بیان دینے کے متعلق ہدایات نہیں ہیں۔ جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق معاونت کرسکتا ہوں۔