وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کا ایک سال مکمل ہونے پر ایک بار پھر سلامتی کونسل سے اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کو اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے کے نتائج اور بھارت کے جارحانہ عزائم سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو درپیش سنگین خطرات پر غور کے لیے کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے۔
وزیر خارجہ نے اپنے خط میں مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرے، انٹرنیٹ اور مواصلات پر پابندی، کشمیری سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی اور کشمیری نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور تشدد، ماورائے عدالت قتل وغارت گری اور کشمیریوں پر اجتماعی سزا کے نفاذ سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی سرکاری دستاویزات کے طور پر دو پیپرز بھی فرام کیے ہیں جن میں سے ایک جموں و کشمیر تنازع کے قانونی پہلوؤں جبکہ دوسرا مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ہے۔
وزیر خارجہ نے کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کو مضبوط بنائے تاکہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سلامتی کے حوالے مکمل اور درست رپورٹ کرنے کے قابل ہو۔
سلامتی کونسل کو بین الاقوامی امن و سلامتی کی بحالی کے لیے اپنی بنیادی ذمہ داری کی یاد دہانی کراتے ہوئے وزیر خارجہ نے کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے فوجی محاصرے کے نتائج اور بھارت کے جارحانہ عزائم سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو درپیش سنگین خطرات پر غور کے لیے اجلاس طلب کیا جائے۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست 2019 کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ بھارتی آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔
بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔
بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔
سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘
22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔
عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔