ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتی عبدالقوی کے چچا عبدالواحد ندیم نے کہا کہ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے خاندان کا ہونہار فرزند ایسی کوئی حرکت کرسکتا ہے جس سے پورا خاندان ٖغم کی کیفیت میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ان کی دماغی حالت صحیح نہیں ہوتی اور وہ اپنی حالت ٹھیک نہیں کرلیتے اس وقت تک ان سے لفظ ‘مفتی’ واپس لے لیا گیا ہے کیونکہ اس میں صرف خاندان کی نہیں علمِ دین اور اسلام کی توہین ہے۔
مفتی عبدالقوی کے چچا کا کہنا تھا کہ بہت دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج کے بعد ہم عبدالقوی صاحب تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہم ان سے مفتی کا لفظ واپس لے چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا اس لیے کیا کہ ہمارے دادا، والد اور بڑے بھائی اور پھر ہم سب کو مفتی کہا جاتا تھا اور پھر انہیں کہا جانا شروع کیا گیا مگر اپنی خراب دماغی حالت کی وجہ سے انہوں نے اس لفظ کو داغدار کردیا ہے۔
مفتی عبدالقوی کے چچا نے مزید کہا کہ ہمارے خاندانی اصول کے لحاظ سے وہ اس لفظ کے حقدار نہیں رہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ وہ بچپن سے بہت ذہین، لائق تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب انتہائی غلیظ گفتگو، انتہائی غلط حرکات تک مسئلہ پہنچا تو اس پر پورا خاندان ان کو ملامت کررہا ہے، سب سخت پریشان ہیں، صبح سے شام تک فون آتے رہتے ہیں کہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟
مفتی عبدالقوی کے چچا نے کہا کہ وہ میرے بھتیجے ہیں لیکن ان کو کیا ہوا؟ کیسے وہ اس عادت کا شکار ہوئے؟کس طریقے سے وہ لوگ جو مقامی شہرت کے مالک تھے آج ان کو خواہش ہوئی کہ کیوں نہ ہم ایسے آدمی کا سہارا لیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مفتی عبدالقوی کے نام کے ساتھ کسی کا نام جائے گا تو یقینی بات ہے کہ اس کو بھی شہرت ملی گی، اس کا نام بھی آئے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مفتی عبدالقوی کو میل جول سے روک دیا گیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ جب تک ان کا علاج مکمل نہیں ہوتا ان کی حالت درست نہیں ہوتی اس کو وقت انہیں محفوظ رکھا جائے۔
مفتی عبدالقوی کے چچا نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ان کے اس بے اعتدلانہ رویے سے جہاں خاندان کو حفاظت ملے وہاں علمِ دین کے حوالے سے مفتیان کو جو نام بدنام ہورہا ہو اس سے بھی بچا جائے۔