ما ہ ذی الحجہ اور قربانی کے فضا ئل

ما ہ ذی الحجہ اور قربانی کے فضا ئل 

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ 

ترتیب و تہذ یب: نظیرالحسن تھانوی۔ سڈنی، آسٹریلیا۔

محترم براد ران عزیز، اسلامی مائیں بہنیں اور میرے عزیز بچواور بچیو: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پاک ارشاد ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت کے لئے ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں، ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابرہے اورایک رات کی عبادت شب قد ر کی عبادت کے برابر ہے۔ (ترمذی شریف، ابن ماجہ شریف) 

قرآن مجید کی سورۃ والفجر میں اللہ تعالی نے راتوں کی قسم کھائی ھے اور وہ د س راتیں اکثرعلماُ کے نزدیک یہئ ذی الحجہ کی پہلی د س راتیں ہیں۔ خصوصیت سے نویں اور دسویں رات یعنی یوم عرفہ اور عید الاضحی کی راتیں خاص فضیلت رکھتی ھیں ۔ 

عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ (جس دن عرفات، مکۃ مکرمۃ میں حجاج حج کی فرضیت ادا کرتے ھیں) کا روزہ رکھنا، ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناھوں کا کفارہ یعنی معافی کا ذریعہ ھے ۔اسی طرح عید کی رات میں بیدار رہ کر عبادت میں مشغول رہنا بڑی فضیلت اور ثواب کا ذریعہ ھے۔  حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پاک ارشاد ھے کہ جو مومن مرد اور عورت عیدین  (یعنی عید الفطر اور عید الاضحی ) کی راتوں میں جاگ کر (چاہے وہ تھوڑی دیر ھی کیوں نہ ھو) اللہ سے اپنے گناھوں کی معافی اور مغفرت کا طلب گار رھے تو قیامت کے دن جب سب کے دل مردہ ھوں گے، اس مومن مرد یا عورت کا دل اللہ کی توجہ اور رحمت سے زندہ رہے گا۔  (ابن ماجہ شریف) 

نویں ذی الحجہ کی تاریخ کی فجر سے تیرھویں تاریخ کی عصر تک ھر نماز کے بعد بآواز بلند ایک مرتبہ تکبیر تشریق کہنا واجب ھے ۔ فتوی کی تفصیل یہ ھے کہ با جماعت نماز پڑھنے والے اور تنہا سب اس حکم میں برابر ھیں تاھم عورتیں آھستہ آواز میں تکبیر پڑھیں (شامی)۔  تکبیر تشریق یہ ھے:

آللہٌ آکبر آللہٌ اٌکبر اللہٌ اکبر لٓا الٓـَہ الؐا اللہٌ و اللہٌ اکبر اللہٌ اکبر و للہِ الحمد

نماز عید

یہاں ایک اھم مسئلہ کی طرف توجہ دلانی ھے کہ اکثر حضراتعیدالاضحی کو حج سے متصل عبادت سمجھتے ھیں جبکہ یہ اپنی جگہ ایک اھم فریضہ ھے جو ان لوگوں کے لئے ھے جو حج کے لئے نہ جاسکے ھوں۔ اس لئے اپنے مقام پر رویت ھلال سےاس ماہ کی ابتدا ھوگی جبکہ یوم عرفہ سے اس کاتعلق نہیں۔ اسلئے کہ قربانی تو بہت پہلے سے ھے جبکہ حج ۸ھجری میں مدینہ میں فرض ھوا۔

عید الاضحی کے د ن حسب ذیل امور مسنون (سنت) ھیں:

۱۔  صبح سویرے اٹھنا

۲۔  غسل و مسواک کرنا 

۳۔  پاک صاف عمدہ کپڑے پہننا جو حسب استطاعت اپنے پاس موجود ہوں

۴۔  خوشبو لگانا

۵۔  نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا  ( بہتر ھے لیکن مریض کے لئے جائز ھے)

۶۔  عید کی نماز کو جاتے ھوئے راستہ میں بآواز بلند تکبیر تشریق پڑھنا

۷۔  فضول اور غیر ضروری باتوں سے اجتناب

۸۔  پردہ کی اور نظروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنا دل اللہ کی طرف متوجہ رکھنا

۹۔  اپنے گناھوں سے سچے دل سے توبہ اور اللہ سے مغفرت کی دعا خصوصیت سے پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا مانگنا

۱۰۔  جس راستہ عید کی نماز کے لئے جائیں اس کے بجائے دوسرے راستے سے واپس آنا اور اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ رھنا

۱۱۔  عید کی نماز صرف مرد وں پر واجب ھے ۔ عورتوں کے لئے گھر میں رھنا اور اس دوران نوافل، ذکر اور تسبیح میں مشغول رھنا زیادہ باعث فضیلت اورثواب ھے۔ نماز عید د و رکعتیں ھیں ۔ ان کی ادائیگی امام صاحب کی بتائی ھوئی تفصیل کے مطابق ادا کیجئے ۔ نماز عید کے بعد خطبہ سننا واجب (ضروری) ھے ۔ اگر بغیر خطبہ سنے چلا آیا تو نماز مکمل نہ ھوگی۔ 

۱۲۔ آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے ایک ھی جگہ بڑے اجتماعات پر پابندی ھے ۔ آسٹریلین فیڈرل اور اسٹیٹ گورنمنٹ نے چند احتیاط کے ساتھ مساجد میں جماعت کی نماز کی اجازت دے رکھی ھے ۔ اس سلسلہ میں انتہائی موؑدبانہ گزارش ھے کہ اپنی اپنی مساجد کی کمیٹی سے رابطہ کرکے ان کی ھدایت کے مطابق عمل کریں اور پورا تعاون کریں۔ خواتین سے گزارش ھے کہ وہ گھر پر ھی رھیں اور ۱۲سال یا اس سے کم عمر بچوں کوھرگز مسجد نہ بھیجیں۔ اپنے مصلؑے یا جانمازیں ساتھ لے جائیں اور نماز مکمل ھوتے ھی واپس آجائیں اور وھاں رکنے کی کوشش نہ کریں نہ ھی ملاقات کی کوشش کریں۔  ڈیڑھ میٹر کے مقرر شدہ ذاتی فاصلہ کو ضرور قائم رکھیں۔ اپنے ھاتھوں کو خاص طور سے صاف رکھیں۔

قربانی کی فضیلت

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے قربانی کی بہت فضیلت بیان فرمائی ھے ۔ سورۃ الا نعام (پارہ ۸) میں آیات۱۳۸ تا ۱۴۵تک اور سورۃالحج (پارہ ۱۷) کی آیات ۳۴ تا ۳۷ میں تفصیل سے قربانی کی اھمیت ھر امت کے لئے بیان ھوئی ھے ۔ اسی طرح سورۃ الکوثر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قربانی کا حکم دیا گیا ھے ۔

قربانی کے دنوں میں، جو د س ذی الحجہ کی صبح سے ۱۲ ذی الحجہ کے سورج غروب ھونے سے پہلے تک ھیں، کوئی عمل صدقہ و خیرات کا قربانی سے بہتر نہیں۔ حضرت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہاِ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پاک ارشاد روایت فرماتی ھیں کہ آدمی کا کوئی عمل قربانی کے د نوں میں قربانی سے زیادہ اللہ تعالی کو پسند نہیں اور قربانی کا جانورقیامت کے د ن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ حاضرھوگا کہ قربانی د ینے والے کو اس کا اجر د لوا سکے اورپل صراط پر سواری کی حیثیت سے مد د کرے گا۔ [اسی لئے] فرمایا کہ اپنی قربانیوں کوخوب کھلا پلا کرفربہ کیا کرو۔ قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے حق تعالی شانہ کے ھاں مقبول ھوجاتا ھے، تو خوب خوشی سے اور دل کھول کر قربانی کیا کرو۔ (ابن ماجہ، ترمذی وحاکم) 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ذ بح کے وقت اپنی بیٹی سے فرمایا: اے بیٹیفاطمہ! اٹھ اور اپنی قربانی پر جا کر کھڑی ھوجا اور پاس موجود رہ کیونکہ خون کا پہلا قطرہ قربانی کا زمین پر گرنے سے پہلے ھی اللہ تعالی کی طرف سے تیرے لئے تمام گناھوں کی مغفرت ھوجائے گی اور یاد رکھ کہ قیامت کے دن اس قربانی کا خون اور گوشت لایا جائے گا اورتیری میزان عمل میں ستر گنا (۷۰ حصے) بڑھا کر رکھ دیا جائے گا اور ان سب کے بدلہ نیکیاں دی جائیں گی اور یہ ثواب آل محمد کے لئے خاص اور مسلمانوں کے لئے عام ھے۔ (امام راغب اصفہانی)۔ 

ایک اور حدیث میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے استفسار پر کہ قربانی کیا چیز ھے اور ھمیں اس میں کیا ملتا ھے؟ ، آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمھارے نسبی یا روحانی باپ (حضرت) ابراھیم (علیہ السلام) کی سنت ھے (جو انہوں نے اپنے چہیتے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی دے کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کے حکم پر پیش کردی تھی اور اللہ تعالی نے ان کے بیٹے کی جگہ ایک دنبہ کو بھیج کر نہ صرف ان کی قربانی کو قبول کیا بلکہ اس عمل کو اتنا پسند فرمایا کہ آنے والی انسانی نسلوں کے لئے قربانی کو اللہ تعالی کے قرب اور محبت کا ایک خاص ذریعہ بنادیا۔ ( چنانچہ عید الاضحی پر ایک جانور یا اس کے ساتویں حصہ کی قربانی گویا ھماری عزیز ترین شے یعنی اولاد کی قربانی کا نعم البدل ھے جو ھم عاجزانہ حق تعالی شانہ کی بارگاہ میں اس نیت سے پیش کرتے ھیں کہ اے باری تعالی! آپ کے حکم پر میری جان، مال اور اولاد سب قربان ھے کیونکہ یہ سب آپ ھی کی دی ھوئی امانتیں ھیں۔ ) اور قربانی کے بدن پر جتنے بال ھوتے ھیں ھر ھر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ھے اور ایک ایک گناہ معاف ھوتا ھے۔ (امام حاکم رح) 

سبحان اللہ قربان جائیے اس رب کریم کے کہ اس کے کرم سے ایک قربانی کرنے سے ھزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ھیں کہ ھم ان کو گن بھی نہیں سکتے جیسا کہ جانور کے بالوں کو نہیں گن سکتے 

​​​​​​ جان دی، دی ھوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ھے کہ حق ادا نہ ھوا

قربانی ھر اس مرد اور عورت پر واجب ھے جن پر عیدالاضحی کے دن اتنا مال ھو جس سے زکوۃ فرض ھوجاتی ھے اور اگر اتنا مال نہیں جس سے زکوۃ فرض ھو تو پھر قربانی واجب نہیں۔ تاھم بہت بڑی نیکی اور اللہ سے محبت کی نشانی ھے کہ اللہ کی خوشی اور بے حساب نیکیاں حاصل کرنے کے شوق میں قربانی کی جائے۔  ویسے بھی نمعلوم اگلے سال یہ موقع نصیب ھو یا نہ ھو۔ پھر اگر اللہ نے مال دار بنایا ھو تو نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ مرحوم والدین اور عزیز و اقارب کی طرف سے بھی قربانی کردینی چاھئے تاکہ ان کی روح کو بھی اس کا ثواب پہںچ جائے۔ اسی طرح ان میں سب سے زیادہ حق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آپ کی ازواج مطہرات اور اھل بیت کا ھے اور ایک زائد قربانی میں سب کی نیت یا کئی قربانیاں اس نیت سے کی جاسکتی ھیں جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو حضور اکرم ﷺ نے وصیت کی تھی ۔ 

قربانی کے جانوروں میں بھینس اور گائے کی نسل کے تمام جانور، بکری اور د نبہ کی نسل کے تمام جانور اور اونٹ کی نسل کے تمام جانور چاھے نر ھوں یا مادہ سب شامل ھیں۔ تاھم بچہ ھونے والی مادہ کی قربانی سے احتراز کریں تو بہترھے لیکن اگر کوئی اور جانور دستیاب نہ ھو اور قربانی دینا واجب ھوتو پھر جائز ھے۔ بکری یا دنبہ کی نسل کی عمر کم از کم ایک سال یا اس سے زیادہ ھولیکن اگر سال سے کم ھو لیکن اتنا صحت مند ھو کہ سال بھر کے جانوروں میں پہچانا نہ جائے تو قربانی جائز ھے۔  گائے یا بھینس کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ کی عمر کم از کم ۵ سال ھونی چاھئے۔  یہ بھی انتہائی ضروری ھے کہ جانور مکمل صحت مند ھو اور اس میں کوئی جسمانی عیب یا نقص بالکل نہ ھو۔ اپنے علاقے کے عالم یا مسجد کے امام صاحب سے راھنمائی حاصل کی جاسکتی ھے۔

بکری اور د نبہ کی نسل کے تمام جانور ایک حصہ شمار ھوں گے جب کہ گائے بھینس اور اونٹ کی نسل میں ایک جانور میں سات (۷) حصے شمار ھوتے ھیں یعنی سات آدمی ایک جانور قربان کرسکتے ھیں۔ 

قربانی کے جانورپر مناسب قیمت خرچ کی جائے اور اس بات کی خصوصی احتیاط کی جائے کہ وہ حلال کمائی سے خریدا جائے۔ ضرورت سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا اور عام مارکیٹ کی اوسطا قیمت سے زیادہ خرچ کرنا محض د کھاوا اور تکبر کی علامت اور دوسروں پر فخر کی برائی ھے ۔ ایسی قربانی کی اللہ تعالی کے ھاں قبولیت کی ضمانت بھی نہیں۔ 

آسٹریلیا میں صرف منظور شدہ مذ بح خانوں اور حلال گوشت کی دکانوں کے ذریعہ ھی قربانی کی جاسکتی ھے ۔ اس کے علاوہ اپنے گھر یا صحن میں حتی کہ شہری آبادی کے قریب فارم میں بھیعموما قربانی قانونی طور سے ممنوع ھے لیکن اس سلسلہ میں مقامی کونسل سے معلومات حاصل کی جاسکتی ھیں۔ چنانچہ سستے جانور حاصل کرنے کی کوشش میں وھاں کے مالکوں کوغیر قانونی قربانی پرمجبور نہ کیا جائے ۔ اس زبرد ستی سے بلاوجہ اپنی قربانیوں کو شک میں ڈالنا ھرگز مناسب نہیں ۔ نیز ایسی جگہوں میں جانور کی عمر کا اندازہ بھی صحیح نہیں ھوسکتا۔  حلال گوشت کی دکانوں میں جو آرڈر دیا جائے اس میں اس بات کی تسلی کرلی جائے کہ قربانی کے جانور کی قیمت کا اندازہ اس کے وزن کے حساب سے نہیں بلکہ پورے جانور کی قیمت اور اس کی کٹائی صفائی کی قیمت سے لگایا جائے اور مذ بح خانے والے جو کھال کا پیسہ بناتے ھیں وہ بھی اس میں شامل کرکے ادائیگی کی جائے ۔ اس سلسلہ میں  مقامی علما سے مدد لی جاسکتی ھے۔ 

مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن حصول اجر کے لئے کرسکتا ھے۔

اسی طرح حاجی حضرات کو حج کے دوران شاپنگ کی فکر کرنے کے بجائے وہ رقم قربانی میں لگایئں کیونکہ وھاں ھر عبادت کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ھوتا ھے ۔

قربانی کا گوشت مسنون طریقہ کے مطابق تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ۔ ایک حصہ اپنے اور گھروالوں کے لئے، دوسرا رشتہ دار اور دوستوں کے لئے اور تیسرا غربا اور مساکین کے لئے لیکن اگر سارا گوشت خود ھی رکھ لیا اور کھالیا تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ آسٹریلیا میں اگر مسلمان حاجت مند نہ ھوں تو غیر مسلم مساکین کو بھی گوشت د یا جاسکتا ھے ۔ بہتر صورت یہی ھے کہ ایک زائد قربانی اپنے ملک میں کسی ذمہ دار آدمی کے ذریعہ کروا کر اس کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرادیا جائے تاکہ وہ مسکین بھی گوشت کا ذائقہ چکھ لیں جن کے لئے سارا سال گوشت کی لذت سے فائدہ اٹھانا مشکل ھے اور ایک قربانی یہاں بھی ضرور کریں تاکہ گھر والوں کو بھی قربانی کی برکت اور اس کا گوشت حاصل ھوجائے۔ 

اگر آپ کسی امدادی یا چیریٹی ادارہ یا مدرسہ مسجد کو قربانی کی ذمہ داری سونپیں جو غربا اور مساکین میں گوشت تقسیم کرنا چاھتا ھوتو اچھی طرح تسلی کرلیں کہ وہ یہ کام دیانت داری اور ذمہ داریسے انجام دیں گے اورآپ کی قربانی کا گوشت واقعی ضرورت مندوں میں تقسیم ھوگا ورنہ قربانی نہ کرنے کا گناہ سر پر رھے گا کیونکہ کچھ ایسے ادارے بھی ھیں کہ وہ اس رقم کود وسری امداد میں خرچ کرکے بہانہ بناتے ھیں کہ آپ کو قربانی کی نیت کا ثواب مل گیا چاھے ھو یا نہ ھو۔

آج کل چند جاھل حضرات نے [جن میں کئی امام اور عالم ھونے کا دعویٗ کرتے ھیں] قربانی کو محض ایک رسم اور معاشرہ کی ایک غلط روایت کا نام دے کر اس کی اھمیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کررکھی ھے اور یہاں تک کہتے ھیں کہ یہ جانوروں کا اور ان کے گوشت کا بہت بڑا نقصان اور ضیاع ھے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں جبکہ قرآن اور حد یث کے ابتدا میں دئے گئے حوالوں سے صاف ظاھر ھے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی دینا واجب اور ضروری ھے۔ اگر کوئی قربانی کی رقم کو خیرات کردے تب بھی قربانی نہ دینے کا گناہ اس شخص کے سر پر رھے گا۔  جیسے رمضان اورد وسرے د نوں کے روزوں کی فضیلت اور ثواب صاف ظاھر ھے مگر عید الفطر اورعیدالاضحی کے دنوں میں یہی روزے کا عمل حرام اور گناہ کا سبب ھے ۔ معلوم ھوا کہ عمل وھی مطلوب و مقبول ھے جس کو مالکحقیقی نے مقررہ وقت پر کرنے کا حکم دیا ھے ۔ اسی طرح فجر کی نماز عشا کے وقت نہیں پڑھی جاسکتئ ۔ بہرحال ھمیں اس قسم کی فضول بحث میں الجھ کر اپنئ نیکیاں ضائع نہیں کرنی چاھئیں اور ایسے د ین و عقل سے بے گانہ جاھلوں کی باتوں پر ھرگز دھیان نہ دینا چاھئے۔ قرآن پاک کی سورۃ الانعام ُ۸، آیات ۱۶۲تا ۱۶۴ میں اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی فرمایا ھے کہ اپنی امت سے کہ د یجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھا رستہ دکھادیا ھے۔ کہ د یجئے کہ میری نمازاور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ ھی کے لئے ھے جو تمام جہانوں کا رب ھے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی بات کا مجھے حکم ملا ھے کہ اور میں سب سے اول فرماں برداروں میں ھوں۔ یعنی اگر میں زند ہ رھوں تومیری نماز کی طرح پاک صاف ھو اور اگر میں مروں تومیری زندگی بھی اللہ تعالی ھی کے راستہ میں قربان ھو، کسی اور مقصد میں نہ ضائع ھو۔

آخر میں، میں اپنی اھلیہ، بچوں اور اپنی طرف سے تمام قارئین کو عید الاضحی کی  دلی مبارک باد پیش کرتا ھوں اوراللہ تعالی سے دعا کرتا ھوں کہ اپنے حبیب پاک حضرت ابراھیم علیہ السلام اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقہ ھماری اور آپ کی قربانیاں قبول فرماکر ذ خیرۃ آخرت بنائے ۔ آمین۔