نیشنل الیکتٹر پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران گردشی قرضوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 20 کھرب روپے کی سطح عبور کرچکے ہیں۔ اپنی ’اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ 2020‘ میں پاور ریگولیٹر نے کہا ہے کہ گردشی قرض جون 2019 کے 10 کھرب 60 ارب روپے کے مقابلے بڑھ کر رواں برس جون تک 21 کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کووِڈ 19 سے متعلق مسائل نے بھی گردشی قرض بڑھانے میں کردار ادا کیا کیوں کہ عالمی وبا کی وجہ سے نجلی کے بلز کی عدم ادائیگیوں اور بجلی چوری میں اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کووِڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقسیم کار کمپنیوں کی ریکوریز میں کمی آئی اور مالی سال 20 میں تمام تقسیم کار کمپنیوں سے حاصل ہونے والی مجموعی ریکوریز 88.77 فیصد رہیں جو مالی سال 19 میں 90.25 فیصد تھیں یعنی رواں سال 1.48 فیصد کمی آئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری اور نجی صارفین کی وصولی کے ساتھ ساتھ سبسڈی کی تاخیر سے ادائیگی گردشی قرضوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ نیپرا کا کہنا تھا کہ بجلی چوری اور بجلی کے بلز کی عدم ادائیگی کی بڑی وجوہات میں سے ایک بجلی کی بلند قیمتیں ہیں۔ ریگولیٹر کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ پالیسی کی وجہ سے ’ادا کرو یا بجلی لو‘ کی پالیسی والے پاور پلانٹ سے بجلی کی فروخت میں کمی ہورہی ہے جس کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھ رہی ہے۔
ریگولیٹر کا مزید کہنا تھا کہ اسی لیے تقسیم کار کمپنیں کو گورننس بہتر بنانے اور ہائی ٹرانسمیشن والے فیڈرز پر لوڈشیڈنگ کے بجائے بجلی چوروں اور نادہندگان کو فراہمی بند کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے مہنگے نرخوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیپرا کا کہنا تھا کہ بجلی کی مہنگی لاگت، ناقص تقسیم کار سروسز اور ہائی لاسز والے فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ کی پالیسی صارفین کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے دور کررہی ہے۔ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں برس ملک میں نصب بجلی کی پیداواری صلاحیت 38 ہزار 719 میگا واٹ تھی جبکہ گزشتہ برس یہ سطح 38 ہزار 995 میگا واٹتھی یعنی 276 میگا واٹ کی کمی واقع ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ لوڈ شیڈنگ کی پالیسی صارفین کو چھوٹے گیس یا ڈیزل جنریٹرز کے ساتھ ساتھ یو پی ایس کا استعمال کرنے پر مجبور کررہی ہے جس سے معیشت میں قابل قدر وسائل کی مؤثر تخصیص میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاور پلانٹ کو گیس مختص کرنے اور اس کی فراہمی متعلقہ اداروں کے درمیان اچھی طرح مربوط نہیں ہے اور متعدد مواقعوں پر گیس کم صلاحیت والے پاور پلانٹس کو دی جاتی رہی جبکہ باصلاحیت پاور پلانٹس گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے کم یا بالکل استعمال نہیں ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ طلب پوری کرنے کی پیداواری صلاحیت دستیاب ہونے کے باوجود بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے فیڈر کی سطح پر لوڈ شیڈنگ کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداواری صلاحت دگنی ہوگئی۔