قطر ایئرویز نے فضائی حدود استعمال کرنے سے روکنے اور اپنی مارکیٹوں سے اسے ہٹانے پر چار عرب ممالک سے کم از کم 5 ارب ڈالر زرتلافی کے لیے بین الاقوامی ثالثی کا آغاز کردیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق قطر ایئرویز نے اپنے بیان میں کہا کہ ایئرلائن کو ہدف بنانے کے لیے ان چار ممالک میں اس کے آپریشنز کو بند کرنے کے مقصد کے ساتھ اس کے خلاف خصوصی طور پر اٹھائے گئے اقدامات سے کمپنی کی سرمایہ کاری کی قدر کو اور اس کے عالمی آپریشنز کو شدید نقصان پہنچا۔
ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) اکبر البقر نے کہا کہ ‘ان ریاستوں کی جانب سے قطر ایئرویز کو ان کے ممالک میں کام کرنے اور ان کی فضائی حدود استعمال کرنے سے روکنے کا فیصلہ سول ایوی ایشن کے کنونشنز اور متعدد معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے جن پر عمل کرنے کے وہ پابند ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘جب تین سال تک اس تنازع کو مذاکرات کے ذریعے دوستانہ انداز میں حل کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو ہم نے نوٹسز آف آربٹریشن (ثالثی کے نوٹس) جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور ہمارے حقوق کے تحفظ اور خلاف ورزیوں کی مکمل تلافی کے لیے تمام قانونی راستے استعمال کیے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘پابندیاں لگانے والے ان ممالک کا ان کے غیر قانونی اقدامات کے لیے لازمی طور پر ایوی ایشن سیکٹر میں احتساب ہونا چاہیے کیونکہ وہ دوطرفہ معاہدوں، کثیرالجہتی معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں۔’
قطر ایئرویز نے کہا کہ اس نے عرب سرمایہ کاری معاہدے سمیت تین معاہدوں کے تحت چار سرمایہ کاری ثالثیوں کے ذریعے زرتلافی کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے فضائی حدود پر پابندی کے معاملے پر سعودی عرب، بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مقابلے میں قطر کے موقف کی تائید کردی تھی۔
عالمی عدالت انصاف کے صدر نے کہا تھا کہ ‘بین الاقوامی سول ایوی ایشن کے فیصلے کے خلاف بحرین، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اپیل مسترد کی جاتی ہے’۔
عدالت نے کہا کہ ‘یہ معاملہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے دائرہ اختیار میں آتا ہے’۔
قطر نے آئی سی جے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو ممالک فضائی حدود کی ناکہ بندی کرتے ہیں انہیں عالمی ایوی ایشن قوانین کی خلاف ورزی پر ‘انصاف کا سامنا’ کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ آئی سی اے او نے 2018 میں فیصلہ دیا تھا کہ فضائی خودمختاری کے معاملے پر قطر اور دیگر فریقین کے مابین جھگڑا ختم کرنا آئی سی اے او کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
دوسری جانب چاروں اتحادی ممالک نے آئی سی اے او کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ وہ آئی سی اے او سے اتفاق نہیں کرتے اور مذکورہ ادارے کی جانب سے فیصلہ صریحاً غلطی پر مبنی ہے جہاں فریقین کو صحیح طرح نہیں سنا گیا۔
قطر نے آئی سی اے او میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے چاروں پڑوسی ممالک عالمی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو غیر ملکی مسافر طیاروں کو فضائی حدود سے گزرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔
جس پر چاروں ممالک نے عالمی عدالت انصاف سے آئی سی اے او کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
یاد رہے کہ چاروں عرب ممالک نے جون 2017 میں قطر کے ساتھ اچانک تعلقات منقطع کردیے تھے اور الزام لگایا تھا کہ دوحہ ‘انتہا پسندوں’ کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ قطر نے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔
بعد ازاں چاروں ممالک نے قطری طیاروں کو ان کی فضائی حدود استعمال کرنے سے روکنے، قطر کی سعودی عرب کے ساتھ واحد زمینی سرحد بند کرنے اور قطری شہریوں کو ملک بدر کرنے سمیت وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھائے تھے۔