قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں ایل این جی خریداری کے معاملے پرمصدق ملک اورسیف اللہ ابڑو کے درمیان گرما گرمی ہوئی۔
تفصیلات کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی پٹرولیم کا اجلاس سینٹر محمد عبدلقادر کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیر مملکت پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ چاہتے ہیں نجی شعبہ ایل این جی ٹرمینلز میں سرمایہ کاری کرے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں جنوری اور فروری میں 20کروڑ مکعب فٹ ایل این جی اضافی ہوگی۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ جنوری اور فروری میں ایل این جی کا ایک ایک کارگو اضافی ہو گا۔اس کے باوجود بھی گیس لوڈشیڈنگ کرنا پڑے گی۔ جنوری میں ایل این جی کے دس اور فروری میں ایل این جی کے 9کارگو دستیاب ہوں گے۔
وزارت پیٹرولیم کے حکام کا کہنا تھا کہ گیس کی صورتحال پچھلے سال جیسی ہوگی۔
چئیرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ چار ہزار روپے والی گیس کھاد کارخانوں کو250 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کھاد مافیا کا دباؤ ہے۔
مصدق ملک نے جواب دیا کہ غریب آدمی کو گیس سترہ ڈالر کی دی جاتی ہے۔غریب سے کہا جاتا ہے تیرا باپ بھی دے گا۔ سترہ ڈالر والی گیس برآمدی شعبے کو 9ڈالر میں دی جاتی ہے۔ سترہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو والی گیس کھاد کارخانوں کو یہ گیس 1.35ڈالر سے تین ڈالر میں دی جاتی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ برآمدات بہت ضروری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گیس کے شعبے کا گردشی قرض 1500ارب روہے تک پہنچ گیا۔ اس وقت گیس نہ خریدی گئی جب قیمت دو سے اڑھائی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔ ۔آج ایل این جی کی قیمت چالیس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ چکی۔
پی ایل ایل حکام کا کہنا ہے کہ اس سال گزشتہ سال کے مقابلے میں ایل این جی کے دو کارگوز اضافی آ رہے ہیں۔
وزیر مملکت پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ اس سال جنوری میں دس اور فروری میں دس ایل این جی کارگوزآئیں گے۔ ان اضافی کارگوز سے ایک سو ملین سی ایف ڈی گیس اضافی ملے گی۔ اضافی ایل این جی خریداری کے باوجود سردیوں میں گیس کی راشنگ ہو گی۔ جنوری اور فروری میں ایک ایک کارگو اضافی آئے گا۔ ایل این جی کی ساڑھے چار ہزار والی گیس ساڑھے تین سو والے چولہے کو دیں گے تو گردشی قرض تو بڑھے گا۔ایل پی جی کی درآمد بڑھائی ہے۔
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ20 ہزار ٹن ماہانہ ایل پی جی اضافی درآمد کر رہے ہیں۔ سرکاری سوئی کمپنیاں ایل پی جی بیچیں گی اس سے قیمتوں میں گٹھ جوڑ کو روکا جائے گا۔
کمیٹی چئیرمین کا کہنا تھا کہ گیس کا گردشی قرض 1547 ارب روپے ہے۔ حکومت ایل این جی کم قیمت پر دینا بند کرے ۔کھاد اور صنعتی شعبہ ایل این جی کی اصل قیمت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سینیٹرسیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایل این جی پر مہنگے پاورپلانٹس کیوں لگائے۔ جس پر وزیرمملکت مصدق ملک نے جواب دیا کہ جس وقت پلانٹ لگائے گئے اس وقت ایل این جی کی قیمت بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ سابق حکومت نے جب ایل این جی کی قیمت گری تو اس وقت طویل مدت معائدے نہ کر کے مجرمانہ غفلت کی۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ پاورکمیٹی میں وزیر پاورڈویژن کبھی اجلاس میں نہیں آتا۔ وزیر پاور ڈویژن ہی اصل میں توانائی بحران کے ذمہ دار ہیں۔ قطر انوسمنٹ کمپنی مستقل میں ایک نئی آئی پی پی بن جائے گی۔ گزشتہ تین سالوں میں 27 ارب روپے آئی پی پیز کو کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی۔ قطر انوسمنٹ کمپنی کو جو مراعات دی جا رہیں ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ چیئرمین اوگرا کمیٹی کو یہ بھی نہیں بتا سکا کہ پیٹرول کی قیمت کا تعین کس طرح ہو سکا۔ جب سستی ایل این جی مل رہی تھی تو اس وقت کیوں نہیں خریدی ۔
چیف ایکزیگٹو ی ایل ایل نے بتایا کہ ہم ایل این جی اس وقت خرید سکتے ہیں جب کوئی طلب کے حتمی اعداد وشمار ہوں۔
وزیر مملکت مصدق ملک نے کہا کہ اسد عمر نے بطور سربراہ توانائی کمیٹی ایل این جی خریداری سے انکار کیا۔ جس پر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ مصدق ملک صاحب آب جواب نہ دیں، سرکاری افسران کو جواب دینے دیں۔ اجلاس میں وزیر کو آ کر جواب دینا ہوتا ہے۔ جس پر مصدق ملک نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ وزیر مملکت کو اجلاس میں بیٹھنے کی اجازت ہے کہ نہیں۔
اجلاس میں مصدق ملک اور سیف اللہ ابڑو کے درمیان گرما گرمی ہو گئی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ جب ان کو آئینہ دیکھائیں تو یہ برا مانتے ہیں۔ سرکاری افسران وزرا کو اصل معاملہ کا علم ہی نہیں ہونے دیتے۔ جس پر وزیر مملکت مصدق ملک کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں مشکل سوال ضرور پوچھیں مگر کسی کی عزت پر سوال نہ اٹھایا جائے۔