فلسطینیوں کو حق نہ ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے پر کہا ہے کہ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ نجی چینل ‘دنیا نیوز’ کے پروگرام ‘دنیا کامران خان کے ساتھ’ میں اپنی حکومت کی 2 سالہ کارکردگی سے متعلق خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ ‘قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو حق ملے گا تو اسرائیل کو تسلیم کریں گے’۔ عمران خان نے کہا کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو مقبوضہ کشمیر کو بھی چھوڑ دینا ہوگا کیونکہ دونوں کا معاملہ یکساں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے بارے میں ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے، میرا ضمیر کبھی بھی فلسطینیوں کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو قانون کے دائرہ کار میں لانے کے لیے اقدامات کیے تو انہوں نے حکومت گرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘جب حکومت سنبھالی تو ایک سمت میں توجہ دینا ناممکن تھا کیونکہ تمام ادارے بحران سے دوچار تھے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں اشرافیہ کے پاس تمام مراعات ہیں جبکہ وہ ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے، شوگر مافیا بنے ہوئے ہیں اور طبقات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے احساس پروگرام لے کر آئے تاکہ نیم متوسطہ طبقہ بھی ترقی کرسکے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘بالکل اسی طرح چھوٹی صنعتیں متعدد چیلنجز سے دوچار ہیں جو دراصل ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں جبکہ بڑے صنعت کار اپنے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں’۔

عمران خان نے کہا کہ اشرافیہ طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالا تر ہے اور قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا اس لیے اشرافیہ کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے گزشتہ دو برس میں متعدد فیصلے کیے گئے جس کی وجہ سے بہت شور شرابا ہے۔ معیشت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘میرے نزدیک تین بڑے چیلنجز ہیں جس میں پہلا 10 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا جس کا براہ راست معیشت پر منفی اثر تھا’۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو بجلی مہنگی ہوجاتی ہے، مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو غریب آدمی پستا ہے’۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘گزشتہ 2 برس کی مشقت کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت کے بعد پاکستان میں بڑا چیلنج توانائی کا ہے جس کی ایک بڑی وجہ سابق حکومت کے بجلی کے معاہدے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اگر قرضوں کی قسطیں نہ دینی پڑے تو اپنے اخراجات کو کنٹرول کرکے ملک کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں، قرضوں کی قسطوں کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ملک میں توانائی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق حکومتوں نے مہنگے معاہدے کیے جس کی وجہ سے اب ملک میں بجلی مہنگی تیار ہو رہی ہے جبکہ عوام کو ‘سستی’ بیچ رہے ہیں یعنی ریٹ میں خسارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بجلی کی قیمت نہیں بڑھاتے تو گردشی قرضے بڑھ جاتے ہیں، بجلی مہنگی ہونے کا مطلب ہے کہ مقامی صنعت پر دباؤ ہوگا اور وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے صنعتی شعبے کا مقابلہ نہیں کرسکے گی اور اگر صنعت کو سبسڈی دیتے ہیں تو خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی ترین بجلی بن رہی ہے اور یہ معاہدے سابق حکومتوں نے آئی پی پیز کے ساتھ کیے لیکن آئی پی پیز کے ساتھ حالیہ معاہدے پر ان شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئی پی پیز چاہتے تو ہمارے ساتھ از سر نو معاہدے نہیں کرتے اور عالمی عدالت میں پہنچ جاتے جہاں پاکستان کو ناکامی ہوتی کیونکہ سابقہ حکومتوں نے ان سے معاہدے کیے۔

عمران خان نے کراچی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مسائل کو دیکھتا ہوں تو تکلیف ہوتی ہے اور کراچی کا مسئلہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی موجودہ حکومت کو دیہی سندھ سے ووٹ ملتا ہے اس لیے ان کی ساری توجہ ادھر منتقل ہوجاتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے کہ سندھ میں لوکل گورنمنٹ سسٹم ہونا چاہیے اور یہ نظام ایک آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘میں پلان کرکے آرہا ہوں کہ کراچی میں کس طرح مزید پیسہ لگایا جاسکتا ہے’۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبے کو اختیار ملتا ہے اور جب تک صوبہ نہ چاہے تو وفاق کچھ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت ہے اس لیے میں مختلف امور میں مداخلت کرتا ہوں، لیکن سندھ پر بات کروں تو وہ لوگ شور مچاتے ہیں کہ آپ آئینی اختیار سے تجاوز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘کراچی کے لیے ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں خصوصاً پانی کے مسئلے پر بھی حالیہ اجلاس ہوئے ہیں اور متعدد منصوبوں کے لیے رقم مختص کر رہے ہیں’۔ وزیر اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کراچی کے حالات جلد بہتر ہوں گے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عثمان بزدار پر لگنے والے ایک ایک الزام کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے چیک کراتا ہوں۔ عمران خان نے عثمان بزدار پر شراب کے لائسنس سے متعلق الزام کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے وزیر اعلیٰ کو بلا کر شک پیدا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘اگر کیس مضبوط ہوتا تو سب سے پہلے میں عثمان بزدار کو کہتا کہ وہ عہدہ چھوڑیں’۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ‘عثمان بزدار کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ میڈیا پر آکر اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہتے اس لیے ہر کوئی ان پر الزام لگا دیتا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘پنجاب میں جو منصوبہ بندی ہورہی ہے وہ دیگرصوبوں کے مقابلے میں آگے نکل چکے ہیں’۔ پنجاب میں 4 آئی جی، 4 چیف سیکریٹریز کی تبدیلی سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہماری پارٹی پہلی مرتبہ حکومت میں آئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) گزشتہ 30 برس سے اقتدار میں تھی اور اس عرصے میں ان کی جڑیں بیوروکریسی میں اندر تک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘کچھ انتخابات غلط ہوئے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا لیکن اب جو آئی جی اور چیف سیکریٹری آئے ہیں سب ٹھیک چلے گا’۔

کورونا وائرس سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن سے متعلق تجویز پر خود میری پارٹی کے اراکین نے تنقید کی لیکن میں بھارت میں پیدا ہونے والی صورتحال سے اندازہ لگا چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تجویز کی مخالفت کی لیکن ہم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان علاقوں یا محلوں میں لاک ڈاؤن لگایا جہاں کیسز زیادہ تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے لوگوں سے ڈیل نہیں کرسکتا تھا، اگر مکمل لاک ڈاؤن لگا دیتے تو غریب لوگ بھوکے مرجاتے اور وہ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرتے جس طرح بھارت میں ہوا۔

چینی اور گندم کی قیمت میں اضافے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں ذخیرہ اندوزوں کے کارٹل بنے ہوئے ہیں جو حکومت کو دھمکی بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چینی سے متعلق فرانزک انکوائری کرائی تو بروکرز فرنٹ مین نکلے، شوگر ملز مالکان 30 فیصد چینی آف دی بک فروخت کرتے ہیں۔ عمران خان نے بتایا کہ مافیا متحد ہو کر دباؤ ڈالتا ہے اور شوگر ملز ایسوسی ایشن نے واجد ضیا کو خط میں انکوائری روکنے کے لیے دھمکیاں دیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں چینی مافیا نے حکومت کے ڈر سے سندھ میں چینی ذخیرہ اندوز کرنا شروع کردی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ شوگر کمیشن نے تحقیقات کیں تو جہانگیر ترین کا نام سامنے آیا جس پر مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ انہوں نے میرے سیاسی کیریئر میں سب سے زیادہ جدوجہد کی۔ انہوں نے کہا کہ لیڈرشپ میں بعض اوقات انتہائی مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ‘انہیں ابھی مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ واضح ہے کہ جہانگیر ترین جس صلاحیت اور قابلیت کے حامل شخص ہیں کوئی دوسرا نہیں ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے نتائج اداروں کے پاس ہیں وہ باقی فیصلہ کریں گے۔