عمران خان کو سیکیورٹی فراہم کرنے والی دو نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں انکشاف ہواہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو سیکیورٹی فراہم کرنے والی دو نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس وزارت داخلہ نے منسوخ کردیئے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی نے سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے پر شدید تشویش کااظہارکرتے ہوئے آئی جی پی اسلام آباد کو سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے دوبارہ تھریٹ اسسمنٹ کی ہدایت کرتے ہوئے کہا دنیا کو معلوم ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

کمیٹی نے وزارت داخلہ کی طرف سے وزیر ،سیکرٹری سمیت اعلیٰ حکام کی کمیٹی میں عدم شرکت پر شدید برہمی کااظہارکیا۔

مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیکیورٹی پر 4.5 ارب کا خرچہ آتا تھا، سیکیورٹی پر 2200 اہلکار مامورہوتے تھے، اگر وزارت داخلہ کے حکام کمیٹی اجلاس میں نہیں آئے تو اس سے تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ عمران خان کو مروانا چاہتے ہیں۔

آئی جی پی اسلام آباد نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اگر عمران خان کو سیکیورٹی تھریٹ ہے تو 266 سیکیورٹی اہلکار ان کے ساتھ ہوتے ہیں، عمران خان اگر ضمانت پر بھی جاتے ہیں تو پولیس ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔

لیکن سابق تین وزرائے اعظم؛ شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف، اور یوسف رضا گیلانی کی سیکیورٹی پر 5 سے زائد سیکیورٹی اہلکار نہیں ہوں گے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔سینیٹرز اعظم نذیر تارڑ، مولا بخش چانڈیو، فوزیہ ارشد، سیف اللہ ابڑو، رانا مقبول احمد، شہادت اعوان، کامل علی آغا، سرفراز احمد بگٹی کے علاوہ سینیٹرز اعجاز احمد چودھری، فیصل جاوید، ذیشان خانزادہ، اعظم خان سواتی نے خصوصی طور پر کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔

آئی جی پی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد بھی کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے۔

اس سے پہلے کمیٹی اجلاس کے آغاز میں پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال اور اس کے نتیجے میں متاثرین اور جاں بحق افراد کیلئے خصوصی دعا کی گئیـ

کمیٹی اجلاس میں وزارت داخلہ کی طرف سے کسی کے بھی پیش نا ہونے پرچیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دو دفعہ سیکریٹری داخلہ کو خط لکھنے کے باوجود کوئی بھی کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوا ۔

عمران خان کی سیکیورٹی کے حوالے سے آئی جی پی اسلام آباد کی بریفنگ سے پہلے سینیٹرز ممبران نے عمران خان کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔

عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے معاملے پر بحث کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تمام دنیا سمجھتی ہے اور تمام اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔ ان کی اندرونی سیکیورٹی کو بھی واپس لینا انتہائی افسوسناک ہے۔

سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینا نا مناسب ہے، ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، اس سے بڑی زیادتی نہیں ہو سکتیی۔مریم نواز کو تو پروٹوکول دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم کو سیکیورٹی نہیں دے رہے۔

سینیٹر اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزادوسیم نے کہا کہ بہت مشکل سے عمران خان جیسے لیڈرز پیدا ہوتے ہیں، بے نظیر کی شہادت بھی بڑا حادثہ تھا،عمران خان کی شکل میں وفاقی لیڈر موجود ہے،وہ سابق وزیر اعظم نہیں بلکہ لیڈر ہیں، لیڈر کا نقصان قوم کا نقصان ہوتا ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ کل مریم نواز سیلاب زدگان کے پاس جا رہی تھیں  تو پروٹوکول میں 62 گاڑیاں تھیں ۔عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینا تشویش ناک ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی سیکیورٹی کا معاملہ حساس ہے اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ بینظیر کو بھی سیکیورٹی تھریٹ تھیں، نام بھی سامنے آگئے تھے، اس معاملے کو پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہئے۔ نوازشریف کوسیکیورٹی ملتی رہی اس لیے انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ آج وزیر داخلہ کو لازمی کمیٹی اجلاس میں آنا چاہئے تھا کیونکہ الزامات ہیں کہ عمران خان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کو بھی ہٹا دیا گیا ہے ،وہ ایک بڑی جماعت کے لیڈر ہیں اگر وزارت داخلہ کے حکام کمیٹی اجلاس میں نہیں آئے تو اس سے تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ عمران خان کو مروانا چاہتے ہیں۔

سینیٹراعظم خان سواتی نے کہا کہ ہائی کورٹ میں بھی کہا گیا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔ان حالات کے اندر ہم سب نے اپنا فرض ادا کرنا ہے اور اس کمیٹی کی آواز موثر انداز سے باہرجانی چاہئے۔عمران خان کی سیکیورٹی ان کی شخصیت کے مطابق نہیں ہے، دشمن کافی زیادہ ہیں، کمیٹی فیصلے میں عمران خان کو لاحق خطرات کو سامنے رکھا جائے۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کی سلامتی کے دشمن نہیں ہیں ہم ان میں نہیں جنہوں نے بی بی اور بھٹو کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔

وزیر قانون وانصاف   اور سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیلاب زدگان کی فکر نہیں لیکن عمران خان کے جلسے ہو رہے ہیں اور گالیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورم اس قسم کے معاملات پر بحث کرنے کیلئے نہیں ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے کمیٹی کو بریفگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت سابق وزیراعظم عمران کی سیکیورٹی پر دو پرائیویٹ کمپنیز کے علاوہ خیبرپختونخوا، اسلام آباد، گلگت بلتستان، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کے تقریبا 266 اہلکارمامور ہیں اور یہ سب ایک ہی کمانڈ کے انڈر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیکیورٹی پر تنخواہوں سمیت تقریبا سالانہ 24 کروڑ روپے کا خرچہ آرہا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ دو پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیز کے لائسنس معمولی غلطی کے باعث منسوخ کیے گئے لیکن وہ ابھی بھی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔

چیف کمشنر نے بتایا کہ لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار وزارت داخلہ کے پاس ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ چاہتی ہے کہ ان دو پرائیویٹ کمپنیز کو تبدیل کردیا جائے۔

آئی جی پی اسلام آباد نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی کا معاملہ اہم ہے۔ کوئی بھی سابق وزیراعظم ہو ان کی سیکیورٹی کا معاملہ سیاسی نہیں ہونا چاہئے۔معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے میڈیا میں اس حوالے سے باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی مہیا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ایجنسیز بھی اس عمل میں شریک ہوتی ہیں۔ سب قانون کے مطابق ہوتا ہے، ہماری گزارش ہوتی ہے کہ ہم سے بھی تعاون کیا جائے۔عمران خان کو بھی اسی طریقہ کار کے مطابق سیکیورٹی دی جا رہی ہے۔

Best Car Accident Lawyer