افغانستان کی لمحہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے جس میں طالبان کےمسلح کمانڈر نے کابل میں واقع صدارتی محل پر قبضہ کرلیا ہے جہاں سے بعض تصاویر اور ویڈیو جاری کی گئی ہیں۔
یہ قبضہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے فرار کے چند گھنٹوں بعد ہوا ہے جبکہ طالبان نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو عام معافی دی جائے گی اور انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
سابق صدر افغانستان اشرف غنی کے ملک فرار ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی طالبان نے کابل میں واقع صدارتی محل پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس سے قبل طالبان نے جلال آباد اور مزار شریف کو فتح کرنے کے بعد کابل کا گھیراؤ کرلیا تھا جس پر صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے تاہم صدارتی محل میں اب بھی اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے طالبان اور کابل حکومت سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم مزاکرات میں شامل افغان رہنما عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ ’ اس موقع پر سابق صدر افغانستان عوام کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدارتی محل میں جاری مذاکرات کے بعد صدر اشرف غنی اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے جب کہ عبوری حکومت کے لیے سابق وزیر داخلہ احمد علی جلالی کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔
افغانستان کی قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ویڈیو پیغام میں صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ ان سے حساب لے گا۔
ادھر ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے اپنے جنگجوؤں کو کابل میں داخل ہونے کی اجازت دیدی ہے کیوں کہ افغان فوج اور پولیس کئی مقامات سے چلے گئے ہیں اور دارالحکومت میں لوٹ مار کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اس لیے طالبان جنگجو کابل کی سیکیورٹی سنبھال لیں گے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع نے کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور تنازع کے سیاسی حل کے لیے تمام اختیارات سیاسی قیادت کو سونپ کر گئے ہیں۔
صدر اشرف غنی کی تاجکستان روانگی سے قبل طالبان وفد اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے افغان صدارتی محل میں داخل ہوگئے تھے جہاں طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے نائب صدر امر اللہ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ میں کسی بھی صورت طالبان کے سامنے نہیں جھکوں گا۔ میں اپنے ہیرو،کمانڈر اور رہنما احمد شاہ مسعود کی روح سے بے وفائی نہیں کروں گا۔ میں طالبان کے ساتھ کبھی ایک چھت کے نیچے نہیں بیٹھوں گا۔ کبھی بھی نہیں۔‘
افغانستان میں ترجمان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دارالحکومت کو طاقت کے ذریعے فتح کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سے انتقام لیں گے۔ ہمارے جنگجو کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور پُر امن طریقے سے داخل ہونا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب دوحہ میں طالبان کے ترجمان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کابل میں داخل ہونے والے جنگجوؤں کو تشدد سے گریز کا حکم دیا گیا ہے جب کہ جو بھی مخالف لڑائی کے بجائے امن پر آمادہ ہو انھیں جانے دیا جائے گا اور خواتین سے محفوظ علاقوں میں جانے کی درخواست کی ہے۔
عینی شاہدین نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ دارالحکومت میں طالبان جنگجوؤں کو بہت ہی معمولی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ کابل یونیورسٹی آج صبح ہی خالی کردی گئی تھی اور تمام طالبات گھروں کو جا چکی ہیں۔ عوام گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔
کابل حکومت نے اس تمام صورت حال پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم صدر اشرف غنی کے چیف آف اسٹاف نے ٹویٹر پر کابل کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ براہ کرم فکر نہ کریں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے. کابل کی صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم تین افغان حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جنگجو دارالحکومت کے کالکان ، قرا باغ اور پغمان اضلاع میں موجود ہیں۔
ادھر برطانوی سفارت کاروں اور برطانوی فوج کے لیے مترجم کا کام انجام دینے والے افغان شہریوں کی منتقلی کا عمل بھی جاری ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی ہدایت پر برطانوی فوج ان افراد کو لینے پہنچ گئی ہے۔
کچھ دیر قبل برطانوی وزیرِ اعظم بورِس جانسن نے ہنگامی کوبرا میٹنگ کے بعد کہا ہے کہ افغانستان کو دہشتگردی کے لئے معاون میدان بننے سے روکنا ہوگا کیونکہ کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم خیال قوتیں‘ جمع ہوں اور مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی معاہدے کے بغیر نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پر بدھ کے روز پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا ہے جو اس بدلتی ہوئی صورتحال پر غور کرے گا۔ انہوں نے کابل کی صورتحال کو ’ انتہائی مشکل اور پیچیدہ ‘ قرار دیتے ہوئے مزید مشکل ہونے کا اظہار بھی کیا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان اس سے قبل اہم شہر جلال آباد اور مزار شریف پر قبضہ کر چکے ہیں اور طور خم بارڈر تک کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ صرف کابل ایسا شہر باقی بچا تھا جہاں طالبان کی عمل داری قائم نہیں ہوسکی تھی۔