پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے 22 جولائی کو سوشل و ویب اسٹریمنگ ویب سائٹس پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ اور اٹارنی جرنل آف پاکستان کو نوٹس جاری کیے تھے۔
سوشل میڈیا اور ویب اسٹریمنگ ویب سائٹس پر قابل اعتراض مواد کی موجودگی سے متعلق سماعت کے دوران عدالتی بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ ہمیں آزادی اظہار رائے سے کوئی مسئلہ نہیں، ہم عوام کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں، ہماری کارکردگی اور فیصلوں پر عوام کو بات کرنے کا حق ہے لیکن سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ہمارے خاندانوں کو نہیں بخشا جاتا۔
ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے تھے کہ امریکا اور یورپی یونین کے خلاف مواد یوٹیوب پر ڈال کر دکھائیں، کئی ممالک میں یوٹیوب بند ہے۔
جسٹس قاضی امین نے پوچھا تھا کہ کیا ایف آئی اے اور پی ٹی اے نے دیکھا ہے کہ یوٹیوب پر کیا ہورہا ہے؟ ایسے جرم کے مرتکب کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی؟ اس پرعدالت میں پی ٹی اے حکام نے بتایا تھا کہ ہم انفرادی مواد کو ہٹا نہیں سکتے، صرف رپورٹ کرسکتے ہیں۔
دالتی بینچ کی جانب سے یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کی موجودگی پر سخت سوالات کیے جانے کے بعد خیال کیا گیا کہ شاید عدالت ویب اسٹریمنگ ویب سائٹ پر پابندی لگائے۔
عدالتی ریمارکس کے بعد 22 اور 23 جولائی کو ٹوئٹر پو (یوٹیوب بین) کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر رہا اور کئی لوگوں نے ویب اسٹریمنگ ویب سائٹ کو ممکنہ طور پر بند کرنے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
جہاں عام افراد نے یوٹیوب کی ممکنہ بندش پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، وہیں شوبز شخصیات بھی یوٹیوب کی حمایت میں سامنے آگئیں۔
معروف اداکارہ مہوش حیات نے اپنی ٹوئٹ میں یوٹیوب کی ممکنہ بندش پر لکھتے ہوئے تعجب سے سوال کیا کہ واقعی یوٹیوب پر پابندی لگنے جا رہی ہے؟
مہوش حیات نے اپنی ٹوئٹ میں سوال کیا کہ لکھا کہ اس کے بعد ٹوئٹر، انسٹاگرام، فیس بک، نیٹ فلیکس اور یہاں تک کے واٹس ایپ کو بھی بند کیا جائے گا؟
اداکارہ نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ اظہار رائے کی آزادی دینا کسی بھی سماج کا اہم پہلو ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں تو مرکزی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کسی بھی معاملے کے اصل حقائق سامنے آتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ترقی پسند ریاستوں کو پابندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔
اداکار اعجاز اسلم نے بھی یوٹیوب کی ممکنہ بندش پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ کیوں کہ قابل اعتراض مواد اپ لوڈ کرنے والے اکاؤنٹس کو بند کردیا جائے۔
انہوں نے لکھا کہ پورے یوٹیوب کو بند کرنا قوم کو محروم کرنے کے برابر ہوگا۔
ان کی طرح اداکارہ و ماڈل زارا نور عباس نے بھی یوٹیوب کی ممکنہ بندش پر ٹوئٹس کیں اور انہوں نے بھی ویب اسٹریمنگ پر پابندی کی مخالفت کی۔
زارا نور عباس نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ اچھا مواد تخلیق کرنے والے بہت سارے لوگ یوٹیوب کے ذریعے ہی روزی روٹی کما رہے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ یوٹیوب پر مواد کی مانیٹرنگ تو کی جا سکتی ہے مگر اسے بند کرنا پروفیشنل افراد سمیت عوام کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔
انہوں نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں کورونا کی وجہ سے ملکی معاشی حالات کا موازنہ یوٹیوب سے جوڑتے ہوئے لکھا کہ پہلے ہی وبا کے باعث کئی لوگ بے روزگار ہوچکےہیں اور اب ایسے لوگ یوٹیوب کے ذریعےہی کما رہے ہیں۔
ان کے مطابق اگر یوٹیوب کو بھی بند کردیا گیا تو بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ اس عمل سے ذہنی صحت کے مسائل بھی جنم لیں گے جس سے جرائم اور تشدد میں اضافے کا امکان ہے۔