مون سون کے چھٹے اسپیل کے دوران ریکارڈ توڑ بارشوں سے کراچی کے ساتھ ساتھ سندھ کے دیگر حصوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
بارش سے چھوٹے نالے ابل پڑے جبکہ ندیاں بھی اوور فلو ہوگئیں اور ان کا پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہوگیا جس کے باعث وہاں کے مکین چھتوں پر پناہ لینے یا نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
ریکارڈ توڑ بارشوں کے باعث شہر کی صورتحال خاصی خراب ہے جس کا اعتراف وزیراعلیٰ سندھ نے بھی کیا تھا اور آج انہوں نے سندھ کے مختلف اضلاع میں صورتحال کاجائزہ لینے کے لیے دورہ بھی کیا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ میں رین ایمرجنسی نافذ کی جاچکی ہے جبکہ انتظامیہ کے علاوہ پاک فوج اور دیگر فلاحی تنظیمیں بھرپور انداز میں شہریوں کی امداد کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سیلابی ریلے کے باعث قائد آباد کے نزدیک سکھن ندی کے بند میں شگاف پڑ گئے جس سے اطراف کی کچی آبادیوں، گوٹھوں اور دیگر علاقوں میں کئی فٹ پانی بھر گیا۔
برساتی پانی نے جن آبادیوں میں تباہی مچائی ان میں رزاق ٹاؤن، مدینہ ٹاؤن،خلد آباد، رضا سٹی، قائد آباد مرغی خانہ شامل ہے۔
سیلابی ریلے سے سب سے زیادہ تباہی رزا ق ٹاؤن اور مدینہ کالونی میں ہوئی جہاں 6 سے 8 فٹ تک پانی بھر جانے کے علاوہ درجنوں مکانات زمین بوس ہوگئے جس کے بعد علاقہ مکینوں نے رات پکے گھروں کی چھتوں پر بیٹھ کر گزاری۔
علاقہ مکینوں کے مطابق صبح سویرے پاک فوج نے آکر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب محمود آباد اور پی ای ایس ایچ کے سنگم پر موجود ملیر ندی کے دادا بھائی بند کا ایک گیٹ کھل جانے سے آس پاس کی آبادی زیر آب آگئی۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پورے سندھ میں سب سے بارش زیادہ کراچی کے علاقے پی ایف بیس فیصل میں 134 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔
شہر کے دیگر علاقوں میں گلش حدید میں 122 ملی میٹر، ناظم آباد میں 91، صدر میں 88، لانڈھی میں 85، یونیورسٹی روڈ پر 79، سعدی ٹاؤن میں 72، مسرور بیس پر 68، جناح ٹرمینل پر 67، نارتھ کراچی میں 50، سرجانی ٹاؤن میں 46 اور کیماڑی میں 24 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
سندھ کے دیگر شہروں کے حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ٹھٹہ میں 89 ملی میٹر، لاڑکانہ میں 66، میر پور خاص میں 54، نواب شاہ میں 49، جیکب آباد میں 23، مٹھی میں 13، سکھر اور حیدرآباد میں 6 جبکہ بدین میں ایک ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
ملک میں جاری بارشوں کے باعث دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ جاری ہے اور دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر نچلے درجے کی سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جبکہ سکھر بیراج پر بھی 24 گھنٹوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا امکان ہے۔
پانی کی سطح بڑھنے کے ساتھ ہی سکھر اور گڈو بیراجوں کے درمیان واقع کچے کے دیہات زیر آب آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آبپاشی ذرائع کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران گڈو کے مقام پر 35 اور سکھر بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں 50 ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا۔
سکھر بیراج کے کنٹرول روم انچارج عبدالعزیز کے مطابق بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث گڈو بیراج کی دو نہروں اور سکھر بیراج کی چار نہروں میں پانی کی فراہمی بند کردی گئی ہے جبکہ سکھر بیراج کی تین نہروں میں پانی کی فراہمی کم کردی گئی ہے۔
آبپاشی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر بارشوں کا یہ سلسلہ پہاڑی علاقوں میں جاری رہا تو آئندہ دو سے تین روز میں دریائے سندھ میں درمیانے درجے کی سیلابی صورتحال کا امکان پیدا ہوجائے گا۔
اس وقت گڈو بیراج پر پانی کی آمد 2 لاکھ 37 ہزار 479 کیوسک اور اخراج 2 لاکھ 30 ہزار 477 کیوسک ،جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی آمد 1 لاکھ 81 ہزار 565 کیوسک اور اخراج 1 لاکھ 73 ہزار 865 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ دونوں بیراجوں پر پانی کی سطح تیزی سے بلندی کی طرف گامزن ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے مختلف اضلاع میں طوفانی بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آگئی۔
ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکام نے شہریوں کو بلوچستان کے کسی بھی علاقے کی طرف بلا ضرورت سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
قلات میں بارشوں کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،کئی گاڑیاں سیلابی ریلے میں پھنس گئیں ہرنائی کا زمینی رابطہ بھی دیگر علاقوں سے منقطع ہوگیا اور سیکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں۔
اس کے علاوہ واشک میں بارشوں نے پیاز اور کھجور کی تیار فصلوں کو نقصان پہنچایا جبکہ حب میں شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 20 افراد کو ریسکیو کیا، حب میں بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال سے 400 سے زائد افراد گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
کوئٹہ میں 3 روز قبل مرمت ہونے والا مچھ پل ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا جس کے باعث مچھ کا کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا جبکہ موسلادھار بارشوں کے باعث اوتھل میں ندی بھپر گئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی بارش کے بعد کراچی میں کسی ایک مقام پر اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش ہونے کا 36 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔
حکومت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 6 جولائی کو مون سون سیزن کے آغاز سے 25 اگست بارش کے باعث مختلف حادثات میں 30 افراد لقمہ اجل بنے۔
گزشتہ روز بارش کے باعث مختلف حادثات میں 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ گلستان جوہر میں پہاڑی تودہ گرنے سے متعدد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں دب گئی تھیں۔
اس سے قبل 24 اگست کو سب سے زیادہ بارش سرجانی ٹاؤن میں ریکارڈ کی گئی تھی جہاں کئی علاقے تاحال زیر آب اور مکین سخت اذیت کا شکار ہیں، اسی دن شہر میں بارش کے باعث حادثات میں 2 افراد بھی لقمہ اجل بنے تھے۔
21 اگست کو صوبے بھر میں موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں کئی علاقے زیر آب جبکہ شہر قائد میں مختلف حادثات میں 2 نو عمر لڑکوں سمیت 7 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
اس سے قبل 6 سے 9 اگست کو شہر میں وقفے وقفے سے گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی تھی جس میں 9 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ جبکہ گزشتہ ماہ جولائی کے دوران تک شہر قائد میں مون سون کے 3 اسپیل دیکھے تھے۔