اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے ایف جی ای ایچ اے میں براہ راست بھرتی ہونے والے چیف انجینئر اور پلاننگ کوعہدے سے ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے غیرقانونی بھرتیوں کی 15 دن میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس چیئرمین حاجی ہدایت اللہ خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر بہرمند تنگی، فدا محمد اور سیف اللہ ابڑو سمیت خالدہ اطیب اور مولانا عبدالغفور حیدری نے شرکت کی۔
علاوہ ازیں اجلاس میں وزیر ہاؤسنگ مولانا عبدالواسع، سیکرٹری ہاؤسنگ، چیئرمین پی ڈبلیو ڈی اور ایف جی ای ایچ اے سمیت دیگر حکام شریک ہوئے۔
کمیٹی میں پی ایچ اے، ایف جی ای ایچ اے اور اسٹیٹ آفس میں غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ زیر بحث آیا۔
اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ گریڈ 16اور اس سے زیادہ کے ملازمین کس طرح فیڈرل پبلک کمیشن کے بغیر بھرتی کیے گئے، ایف جی ای ایچ اے میں کس طرح گریڈ 20 تک ملازمین کو براہ راست بھرتی کیا گیا ہے۔
حکام نے کمیٹی کوبتایا کہ بھرتی کرنے کی بورڈ نے اجازت دی تھی۔ 15دن دے دیں ہم مکمل انکوائری کرکے کمیٹی میں پیش کردیں گے۔ بھرتی ہونے والوں کو اب نکال نہیں سکتے ہیں کیونکہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔
قائمہ کمیٹی کا 15 دن میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو ملازمین بھرتی ہوئے ہیں ان کی ڈگریوں کا بھی جائزہ لیا جائے اور ان افسران کو کام سے بھی روکا جائے۔
وفاقی سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ بورڈ کی دوبارہ تشکیل کے حوالے سے بھی سمری کابینہ کو بھیج دی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے ارکان نے نجی ٹیسٹنگ سروسز حاصل کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، ارکان نے کہا کہ ڈیپارٹمنٹ خود ٹیسٹ لیں جس طرح پہلے لیتے تھے۔
سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ نجی ٹیسٹنگ سروس سے کرپشن کا نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ ڈی جی پی ڈبلیو ڈی نے کہا کہ اگر ہم خود ٹیسٹ لیں تو کرپشن کے امکانات زیادہ ہوں گے، کرپشن ختم کرنے کے لیے ہی نجی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات لیتے ہیں۔
ڈی جی پی ڈبلیو ڈی کا کہنا تھا کہ امیدواروں سے 5 سو روپے وصول کیے جاتے ہیں جس سے ٹیسٹ کے اخراجات حاصل ہوتے ہیں جب کہ 70 ہزار امیدواروں کے ٹیسٹ کے اخراجات 1.5 کروڑ روپے بنتے ہیں اور اگر حکومت ٹیسٹ کے اخراجات دے تو ہم امیدواروں سے پیسے نہیں لیں گے۔
وفاقی سیکرٹری نے کہا کہ ایف جی ای ایچ اے کو خط لکھا ہے کہ چیف انجینئر اور چیف پلاننگ کو کام سے روکا جائے مگر ان کو کام سے نہیں روکا گیا جس پر ڈی جی ایف جی ای ایچ اے نے کہا کہ چیف انجینئر کو کام سے روک دیا گیا ہے، چیف انجینئر بورڈ کا حصہ ہے ان کو نکال نہیں سکتے ہیں۔ چیف انجینئر اور چیف پلاننگ کو براہ راست گریڈ 20میں بھرتی کیا گیا ہے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ سیکرٹری نے خط لکھا مگر اس کے باوجود چیف انجینئر کو عہدے سے نہیں ہٹایا جارہا ہے۔ وفاقی سیکرٹری نے کہا کہ چیف انجینئر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے خط لکھا ہے جب کہ چیف پلاننگ کو ہٹادیا گیا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے ڈی جی ایف جی ای ایچ اے سے سوال کیا کہ ’صاحب آپ کس سے ڈر رہے ہیں جو ان کو عہدے سے نہیں ہٹارہے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ میں قانون سے ڈرتا ہوں۔
وفاقی سیکرٹری نے کہا کہ 20 گریڈ میں براہ راست کوئی بھرتی نہیں ہوسکتی ہے، ایم پی سکیل میں بھرتی ہوسکتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ چیف انجینئر اور چیف پلاننگ کو عہدے سے ہٹاکر آج ہی کمیٹی میں رپورٹ پیش کی جائے۔
کمیٹی میں مالاکنڈ ڈویژن میں پی ڈبلیوڈی کی طرف سے ہونے والے کام پر بھی بریفنگ دی گئی جس میں سینیٹربہرمند تنگی نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں غیر معیاری کام پر چیف انجینئر پی ڈبلیو ڈی کو نیب کے حوالے کیا جائے، پی ڈبلیو ڈی کی اتنی استعداد کار نہیں تھی جتنا کام دیا گیا۔
وفاقی سیکرٹری نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی میں سیکرٹری اور وزیر کا کوئی رول نہیں ہے۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں سڑکیں بنائی نہیں مگر پیسے کنٹریکٹر نے لے لیئے ہیں۔ اس معاملے پر سب کمیٹی بنائی جائے تا کہ اس معاملے کی مکمل انکوائری ہوسکی کہ کس طرح ٹھیکیدار کو ٹھیکہ دیا گیا جو پہلے ہی ڈیفالٹر ہوگئے ہیں۔
چیئرمین نے مالاکنڈ ڈویژن میں پی ڈبلیو ڈی کے منصوبوں میں مبینہ کرپشن پر قائمہ کمیٹی کی سب کمیٹی بنادی ہے جس کے کنوینر بہرمند تنگی ہوں گے جب کہ کمیٹی ایک ممبر سینیٹر فدا محمد اور دوسرے ممبر کے نام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
کمیٹی نے اگلے اجلاس میں کوئٹہ اور اسلام آباد میں وزارت ہاؤسنگ کے ملحقہ اداروں کے منصوبوں پر بریفنگ مانگ لی ہے۔