سپریم کورٹ؛ نیب ترامیم کیس کی سماعت 11 اکتوبر تک ملتوی

نیب ترامیم کیس کے معاملے میں تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث  دلائل جاری رکھیں گے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ابھی اصل کیس باقی ہے۔ دیکھنا ہوگا کیا نیب قانون میں تبدیلی بنیادی حقوق سے متصادم ہے یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہے نیب قانون سے درخواست گزار کے حقوق کیسے متاثر ہوئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون سے کسی ملزم کا جرم قبول کرنا اب کوئی جرم ہی نہیں رہا۔

وکیل پی ٹی آئی خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ اب درخواستیں دیے بغیر مقدمات واپس بھیجے جا رہے ہیں۔ پہلے سے پلی بارگین یا رضا کارانہ رقوم کی ادائیگی بھی واپس ہو جائیں گی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ 2018 میں نیب قانون کی تبدیلی سے پہلے کیا پلی بارگین کی رقم اقساط میں ادا ہو رہی تھی۔ اب دیکھنا چاہتے ہیں کیا پلی بارگین یا رضاکارانہ رقوم کی واپسی پراقساط ملتی رہیں یا ادائیگی نہیں ہوئی۔

وکیل پی ٹی آئی جواب دیا کہ اس کا جواب نیب کے پاس ہوگا۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ نیب قانون کا سیکشن 25 پلی بارگین کی قسط کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے۔ نئی ترامیم میں ملزم پلی بارگین کی رقم واپسی کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ایک شخص پلی بارگین کی قسطیں کیوں ادا کرے گا جب اسے معلوم ہے کہ وہ نئے قانون سے مستفید ہوسکتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک آپ کیس کے بنیادی نکتے پرآئے ہی نہیں ہیں۔ ابھی آپ نے بتانا ہے کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہوگا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کے سیکشن 9 اے فائیو میں ترمیم کے بعد ملزم سے نہیں پوچھا جا سکے کہ اثاثے کہاں سے بنائے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا اب کسی کو غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثے نیب کو ثابت کرنا ہوں گے؟

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت 11 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی۔

Best Car Accident Lawyer