سنتھیا رچی کی ویزا میں توسیع کی درخواست مسترد، 15 روز میں ملک چھوڑنے کی ہدایت

وزارت داخلہ نے امریکی بلاگر سنتھیا رچی کی ویزا میں توسیع کی درخواست مسترد کردی اور انہیں 15 روز میں پاکستان چھوڑنے کے احکامات جاری کردیئے۔

ریڈیو پاکستان نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وزارت داخلہ نے امریکی شہری کے ویزے کی مدت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی اور انہیں 15 روز کے اندر پاکستان چھوڑنے کی ہدایت بھی کردی گئی۔

علاوہ ازیں امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے خود بھی سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹوئٹ میں مذکورہ خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘وزارت داخلہ، جنہوں نے شاید دباؤ میں آکر جو وہ خود ہی بہتر جانتے ہیں، گزشتہ 10 سال میں پہلی مرتبہ میرے ویزا میں توسیع کو مسترد کردیا’۔

سنتھیا رجی نے مزید کہا کہ ہمیں اس فیصلے پر اپیل کا حق ہے اور یا مجھے جانا ہوگا، ساتھ ہی انہوں ںے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی درخواست کو دیکھیں اور میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے ویزا میں توسیع کریں۔

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ امریکی شہری کے ویزے کی مدت میں توسیع کی درخواست کو وزیر داخلہ نے مسترد کیا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سنتھیا ڈی رچی کے ویزے میں توسیع سے متعلق درخواست پر ایڈیشنل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جنہوں نے اس درخواست کا جائزہ لینے کے بعد سفارش کی کہ ویزے کی معیاد میں توسیع نہ کی جائے۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) رہنما سینیٹر رحمٰن ملک کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

عدالت نے سماعت کے بعد سنتھیا رچی کی رحمٰن ملک کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست واپس ٹرائل کورٹ میں سننے کا حکم دے دیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چوہدری افتخار احمد کی درخواست پر سماعت کے دوران سنتھیا رچی کے حوالے سے کہا تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ وہ خیبر پختونخوا (کے پی) حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ اب وہ کہہ رہی ہیں کہ کسی ادارے کے ساتھ مل کر کام نہیں کر رہیں۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنتھیا رچی کو 13ستمبر 2017 کو شکاگو سے 30 روز کے لیے ویزا جاری کیا گیا تھا، جس پر وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ آج کی تاریخ میں سنتھیا ڈی رچی کے پاس کوئی ویزا نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دنیا کے دوسرے ملک سے کوئی بھی آجائے تو وہ جو مرضی کرتا رہے، کیا سنتھیا موجودہ وزیر اعظم کے خلاف کوئی بیان دے تو وزارت داخلہ کچھ نہیں کرے گی۔

وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکریٹری سے استفسار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آپ نے کیسا آرڈر لکھا ہے، بزنس ویزا کا قانون کیا ہے پڑھ کر بتائیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی میرے پاس قانون کی کتاب نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نے اپنے عمل سے خود کو بے نقاب کیا ہے، آپ خود مان رہے ہیں کہ بزنس ویزا قانون کی خلاف ورزی ہے، وزارت داخلہ کو قانون کا ہی نہیں پتہ یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔

وزارت داخلہ کے نمائندے نے کہا کہ میں ڈپٹی سیکریٹری ہوں اور ابھی میرے پاس قانون کی متعلقہ کتاب موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ڈپٹی سیکریٹری سے سوال کیا کہ کوئی بھی غیر ملکی آنا چاہے تو ریاست پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔

بعد ازاں تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈپٹی سیکریٹری داخلہ فلک شیر عدالت کے سامنے پیش ہوئے لیکن متعلقہ سوالوں کا جواب نہیں دے پائے اور کسی قانون کا بھی حوالہ نہیں دیا اور صرف سنتھیا رچی کے بیان پر انحصار کرتے رہے۔

چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے بیان کو گزشتہ حکم کے برعکس قرار دیا اور کہا کہ سیکریٹری نے تازہ بیان میں تسلیم کیا ہے کہ سنتھیارچی کو ماضی میں دیا گیا ورک ویزا قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تحریری حکم نامے میں سیکریٹری داخلہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ورک ویزے پر پاکستان آنے والا وزیراعظم سمیت عوامی عہدے رکھنے والے افراد سے متعلق سیاسی بیان نہیں دے سکتے اور ایسا کرنے پر انہیں حراست میں لیا جاسکتا ہے اور ملک بدر بھی کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکریٹری کی جانب سے جو احکامات جاری کیے گئے، اس سے سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر وزارت یا تو قانون اور پالیسی سے باخبر نہیں یا پھر مذکورہ کیس میں قوانین کو نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ قانون کا اطلاق سب پر بلاامتیاز ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن چوہدری افتخار احمد نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ سنتھیا رچی ایک غیر ملکی شہری ہیں اور پاکستان میں بغیر مناسب ویزے کے مقیم ہیں لہٰذا انہیں ملک بدر کیا جائے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ امریکی بلاگر کے ویزے کی مدت اختتام پذیر ہوچکی ہے اور ابھی تک متعلقہ ادارے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہیں کر رہے۔

عدالت میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ سنتھیا رچی رجسٹرڈ ووٹر نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت اور تبصرے کرنے کی اجازت اور سہولت فراہم کی گئی ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ انہیں ملک کی سیاسی قیادت کو جھوٹے بیانات اور الزامات کے ذریعے ملک کے تشخص کو داغدار کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سنتھیا رچی کی سرگرمیاں اس ویزے کی شرائط و ضوابط کے خلاف ہیں جو انہیں جاری کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور پولیس سمیت متعلقہ حکام قانون کے مطابق کارروائی کرنے سے انکاری ہیں۔

عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ ایک مجاز نمائندے کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے نامزد کریں جو اس بات کی وضاحت کرے کہ کیا سنتھیا رچی کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی ہے اور اگر ایسا ہے تو قانون کے مطابق کیا کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔

مزید یہ کہ مجاز افسر عدالت کو یہ بھی بتائے کہ غیر ملکی شہری کو کن شرائط و ضوابط پر ویزا جاری کیا گیا کہ جس سے درخواست گزار کے الزام کے مطابق انہیں سیاسی نوعیت کے بیانات دینے کی اجازت ملی۔