رویت ھلا ل اور آسٹریلیا میں اسلامی تہوار
(نظیرالحسن تھانوی۔ سڈ نی آسٹریلیا)
بسم اللہ الرحمن الرحیم. ھو الؑذی جعل الشمس ضیآء وؑالقمر نورا وؑ قدؑ رہ منازل لتعلموا عد د السؑنین و الحساب، ما خلق اللہ ذلک الؑا بالحق، یفصؑل الآیات لقوم یؑعلمون ۔ (سورۃ یونس پ ۱۱، آیت۵)
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ھے ۔ وہ (اللہ تعالی) ھی تو ھے جس نے سورج کو روشن اورچاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم (مہینوں اور) برسوں کا شما ر اور (کاموں کا) حساب معلوم کرسکو۔ یہ (سب کچھ) اللہ تعالی نےتد بیر سے پیدا کیا ھے۔ سمجھنے والوں کے لئے وہ (اللہ تعالی اپنی) آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ھے ۔ [مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورۃ یس، پ۲۳، آیت ۳۸تا ۴۰]۔
اللہمؑ صلؑ علی سید نا و مولانا محمؑد وؑ علی اٗلہ و اصحابہ و اھل بیتہ اجمعین ۔ و صلؑ علی الموؑمنین و الموؑمنات والمسلمین والمسلمات الاحیاء منہم والاموات۔
محترم قارئین و قارئات کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
سب سے پہلے میں حق تعالی وحدہ لا شریک کا تہ دل سے شکر گزار ھوں کہ اس نے اپنے سچے دین پر پیدا فرما کر اس پر قائم رکھا اور اپنے قرآن کریم کو اپنے پیارے نبیسید الانبیاٗ ختم المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنے کرم اور احسان سے نازل فرماکر آپ ﷺ کو اس امت کا ھادی و راھنما بناکر ھماری ھدایت کے لئے بھیجا۔ اللہ تعالی ھم سب کے ایمان کو سلامت رکھے اور ھماری آنے والی نسلوں کو بھی اس پر قائم و دائم رکھے۔ آمین۔
میں ادارہ ھموطن میڈ یا سڈنی آسٹریلیا کی ادارت کے منتظمین کو آسٹریلیا اور عالمی مسلم براد ری کی بے لوث خدمت کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ھوں کہ ان کی عاجزانہ کوششوں سے کمیونٹی کے اند راپنے دین سے محبت، اتحاد اور یگانگت کی فضا قائم ھورھی ھے۔ ماشاء اللہ۔
جب آپ کی توجہ سے یہ سطورگزر رھی ھوں گی تو آپ بقرعید (۱۴۴۱ھ) ۲۰۲۰ع کی تیاریوں میں مصروف ھوں گے۔ میں اپنی اھلیہ، بچوں اوراپنی طرف سے آپ سب کی خد مت میں دلی عیدالاضحی کی مبارکباد پیش کرتا ھوں ۔ کرونا وائرس کے حصار میں اگرچہ یہ ایک مشکل وقت ھے تاھم اللہ تعالی سے دعا ھے کہ حق تعالی اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ سے جلد یہ آزمائش ھمارے سروں سے ٹال دے۔ آپ کی قربانیاں اور عبادات اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمینْ۔
ادارہ ھموطن کی طرف سےاس ناچیز راقم الحروف کودعوت دی گئی کہ ایک عرصہ سے آسٹریلین مسلم برادری میں پھیلی ھوئی اس پریشانی کے حل کے لئے اپنی رائے کا اظھارکروں جو ھر سال رمضان المبارک کے آغاز و اختتام اورعیدین کے موقعے پر پیش آتی ھے یعنی یہ سب مہینے مختلف د نوں میں شروع کئے جاتے ھیں۔ایک طرف توتمام مسلمانوں کی اکثریت ھے جوچاند کی رویت کے امکان کے مطابق بنائے ھوئے کیلنڈ رسےاسلامی مہینوں کا آغاز کرتی ھے . باقی ماندہ صرف وہ مسلمان ھیں جو آسٹریلیا میں چاند نظرآنے کا انتظار کرتے ھیں جوعموما اگلے د ن نظر آتا ھے اور یوںھماری براد ری بلا وجہ تقسیم ھو جاتی ھے ۔ اگرچہ د ونوں گروپ اپنی جگہ کافی حد تک شرعا درست ھیں مگر کمیونٹی میں جو تفرقہ پھیلتا ھے یہ بہرحال ایک انتہائی سنگین مسئلہ ھے۔ سارا سال تو اتنی فکر نہیں ھوتی مگر چونکہ ان مخصوص ایام کا تعلق فرض عبادات سے ہے خصوصا عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا حرام ھے اورعید منانا یعنی نماز قربانی وغیرہ عبادت کا درجہ رکھتے ھیں جبکہ د وسری طرف رمضان المبارک کے روزے فرض ھیں اس لئے ان سب کا صحیح تاریخ پر شروع ھونا اور صحیح تاریخ پرختم ھونا ضروری ھے۔ اگر رمضان ایک د ن دیر سے شروع ھوا تو ایک فرض روزہ چھوٹا اور اگر عید کا دن تھا مگر اس د ن روزہ رکھوایا گیا تووہ روزہ حرام ھوا ۔ عوام کا اس میں قصور نہیں لیکن ان سب کا ذمہ دار کون ھوتا ھے ؟
انشاء اللہ میری کوشش ھوگی کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اختصار کے ساتھ اس مسئلہ کا حل ایک بار پھر آپ کے سامنے پیش کرد وں جس پرالحمد للہ گزشتہ ۳۲ سال سے اپنے احباب کے ساتھ عمل کررھا ھوں۔الحمد للہ میں کسی کونسل یا فیڈ ریشن کا ممبر نہیں ہوں نہ ھی بننا چاھتا ھوں ۔ تاھم میرا خاکسارانہ تعا ون اورمد د ان سب حضرات کے ساتھ ھے جو خالصتا دین اسلام کی سربلندی اور کمیونٹی کی خدمت کے لئے ھمہ وقتمصروف رھتے ھیں اور ھرقسم کے فتنہ و فساد سے بالاتر ھیں ۔
اس سلسلہ میں گزارش یہ ھے کہ تقریبا ۳۲ بتیس سال قبل جب میں نے بحیثیت امام روٹی ھٖل سڈ نی اسلامی مرکزمیں پاکستان سے آکراپنی دینی خد مات شروع کیں تو یہ مسئلہ سامنے آیا۔ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ترکی اور عرب حضرات کی ھے اور وہ اپنے بنے ھوئے اسلامی کیلنڈ روں کے مطابق چلتے ھیں ۔ ترکی حضراتکی مساجد اور اسلامی مراکز ھمیشہ سے براہ راست ترکی حکومت کی ملکیت اور ان کے زیر انتظام ہیں۔ ان کے امام حضرات بھی ان کے سفارتکاروں کی طرح ایک مقررہ مد ت کے لئے حکومت کی طرف سے آتے ھیں اور اپنا وقت مکمل کرکے چلے جاتے ھیں۔ چنانچہ ان حضرات کو اپنی حکومت کا شائع شدہ کیلنڈ ر ملتا ھے اور وہ اسی کے پابند ھیں۔ مطبوعہ تاریخ کو رمضان اورعید ین کی ابتدا ان کے ھاں ھوجاتی ھے چاھے چاند نظرآئے یا نہیں۔
عرب حضرات چونکہ خود مختار تھے اورعموما لبنانی، سعودی یا مصری کیلنڈ رکے مطابق چلتے تھے اس لئے ان سے اس وقت بات چیت کی گئی ۔ اس وقت میرے ساتھ جو حضرات روٹی ھل کی انتظامیہ سے گئے تھے ان میں چند اب بھی حیات ھیں ماشاء اللہ۔ ھم نے اس وقت ان کے بڑے امام صاحب کے سامنے روؑیت ھلال کی اھمیت کو واضح کیا اور تعاون کی درخواست کی مگر وہ کچھ زیادہ اس کے قائل نہ تھے نہ ھی ضروری سمجھتے تھے کیونکہ ان کے پاس جامعہؑ ازھرمصر کا فتوی موجود تھا جس کے مطابق چاند اگر کسی بھی اسلامی مہینہ کی ۲۹ تاریخ کو سورج ڈ وبنے کے بعد افق پر موجود ھو تو اگلا مہینہ شروع کیا جاسکتا ھے، چاھے نظر آئے یا نہ آئے۔
اتفاق سےانہئ دنوں رمضان [۱۴۰۸ھ]، مئی ۱۹۸۸ء سے پہلے ملایشیا کی حکومت کی طرف سے یونیورسٹی آف سائنس (پینانگ شہر) میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) کے تعاون سے متحدہ عالمی اسلامی کیلنڈرپر ایک عالمی سیمینار منعقد ھوا جس کے روح رواں مشہورماھر فلکیات ڈاکٹرمحمد الیاس صاحب اورپروفیسر زھری اسمعیل صاحب تھے ۔ بندہ کو بھی اس کی دعوت ملی اور یہاں سے میرے ساتھ تین اھم شخصیات بھی تشریف لے گئی تھیں [ان میں سے ایک تو اللہ تعالی کے مرحوم ہیں جبکہ باقی دو حضرات سے وقت کی کمی کی وجہ سے ان کے اسمائے گرامی شائع کرنے کی اجازت نہ لے سکا ] ۔ آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کونسل سڈ نی نے ھمارے آمد و رفت کے مصارف برداشت کئے۔ اس کانفرنس میں تمام دنیا سے ماھرین فلکیاتی سائنس ، مختلف ائرلائنز کے کیپٹن حضرات اورتمام مکاتب فکر کے مشہور علماء اور ائمہ حضرات جمع تھے۔ کانفرنس کے آخر میں ایک مشترکہ لائحہؑ عمل مرتب کیا گیا جس کی روشنی میں تین بنیادی فیصلے ھوے [ا] یہ کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی مہینہ کی ابتدا کے لئے روئت ھلال شرعا ضروری ھے، محض مغرب کے بعد افق پر چاند کا ھونا کافی نہیں۔[ب] یہ کہ ساری دنیا میں ایک کیلنڈ ر تو نافذ نہیں ھوسکتا کیونکہ نئے ھلال کی پیدائش کا وقت ایک یونیورسل ٹائم ھے مثلا اگر آسٹریلیا میں صبح ۷ بجے ھلال کی پیدائش کا وقت ھے توپوری دنیا میں مختلف ٹائم زون میں جو وقت ھوگا وہی اس ملک کے چاند کی پیدائش کاوقت ھوگا بلکہ تاریخ بھی مختلف ھوسکتی ھے۔ اب ھر ملک کی جغرافیائی حیثیت چونکہ مختلف ھے اس لئے وھاں چاند نظر آنے کے امکانات کا انحصارمغرب کے وقت چاند کی عمرکے مطابق ھوگا۔ مثلا جو ممالک خط استوا (ایکوے ٹر) کے اوپر یا قریب ھوں گے وھاں کم عمر کا چاند بھی نظر آسکتا ھے بشرطیکہ سورج اور چاند کے غروب میں مناسب فرق ھویا سورج کی شعاعیں کم ھو۔ لیکن جو ممالک خط استوا سےشمالا جنوبا جتنے د ورھوں گے اسی حساب سے چاند کے دیکھنے کی عمرکا اوسط باقی ممالک کی طرح موسموں کی تبدیلی، اوقات کی تبدیلی اورنظام فلکی کے اتار چڑھاوؑ کے مطابق گھٹتا بڑھتا جائے گا ۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے علماء کے مشورہ سے پوری د نیا کوشمالا جنوبا ۴،۴ گھنٹے کے ٹائم زون میں تقسیم کیا گیا تاکہ اگران اوقات میں کسی بھی ملک میں چاند نظر آجائے تو اسی ٹایم زون کے تمام ممالک کے لئے قابل قبول ھوگا اور شرعا جائز اور صحیح ھوگا۔ [ج] علماء کرام نے فقہ کی روشنی میں ایک اوراھم نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ غیر مسلم ممالک [جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فجی] میں رھنے والے مسلمانوں کے لئے یہ گنجائش ھے کہ وہ اپنےاپنے علاقوں میں چاند دیکھیں اورنظر نہ آنے کی صورت میں اپنے قریب ترین اسلامی ممالک کی رویت ھلال کی شہادت قبول کرسکتے ھیں۔
یہ ھم لوگوں کے لئے اس مسئلہ کا ایک بہت بڑا حل تھا ۔ بہرحال کانفرنس سے واپسی کے بعد الحمد للہ عرب حضرات رویت ھلال کے تو قائل ھو گئے تاھم انہوں نے پھرایسی تاریخوں کے کیلنڈ ر تیارکئے جن میںامکان روؑیہ یعنی چاند نظر آنےکا امکان ھو(چاھے باھر نکل کرکوئی دیکھے یا نہ دیکھے) ۔ ادھرکانفرنس کے فیصلے کے بعد رویت ھلال اور اسلامی کیلنڈ ر کے انتظام کے لئے علماء اور ماھرین فلکیات کا ایک مشترکہ بورڈ بنایا گیا جس میں انڈونیشیا، ملایشیا، برونئی دارالسلام، تھائی لینڈ، سنگاپور اور فلپائن کے ممبران شامل ھیں اور ان کے فیصلے، جن کی بنیاد روئت ھلال ھے، ان تمام ممالک میں لاگو ھوتے ھیں ۔ یہ حضرات پاکستان اورانڈیا کی رویت ھلال کمیٹی کی طرح جمع ھوکر رویت کی شہادت کا انتظار کرتے ھیں اور پھر فیصلہ کرتے ھیں۔
یہاں پراس بات کا تذ کرہ ضروری ھے کہ اسلام میں بھائی چارہ اتحاد اور اخوت کی اھمیت پرھمیشہ زوردیا گیا ھےاورتفرقہ سے بچتے ھوئے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ھے (آل عمران پ ۴، آیت ۱۰۲۔ ۱۰۳) ۔ ھم سے عہد لیا گیا ھے کہ ھم رنگ نسل اور علاقائیت سے ھٹ کرانسانیت کی اور اللہ تعالی کی تمام مخلوقات کی نہ صرف عزت کریں بلکہ اس کی خد مت کو اپنی ذات سے بڑھ کر ترجیح دیں (سورۃ الحجرات پ۲۶، آیات ۱۰ تا۱۳) ۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ ان خصوصیات کو دین اسلا م کی بنیاد اورقیامت کے دن مغفرت کی شرط قرار دیا گیا ھے۔ کوئی بھی ایسا عمل یا قانون جس سے براد ری میں فتنہ پھیلے، قرآن پاک ایسے عمل کو قتل و غارت سے بھی زیادہ بڑا اور شدید خیال کرتا ھے۔ (سورۃ بقرۃ پ ۲، آیت ۲۱۷) ۔ مند رجہ بالا ممالک میں اتحاد اور یگانگت کا یہ جذ بہ قابل تعریف ھے کہ وھاں سب ایک ھی د ن رمضان اور عیدین شروع کرتے ھیں اور کونسل آف علماء اور امام کے فیصلوں پر کسی کو اعتراض نہیں ھوتا مگرافسوس ھماری بدقسمتی کہ ھم جان بوجھ کر اپنی چھوٹی سی کمیونٹی کو متحد نہیں رھنے دیتے۔ آسٹریلیا میں مسلم براد ری بہت مختصر ھے اور ٹکنالوجی کے اس دورمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ خبر منٹوں سیکنڈ وں میں پہنچ جاتی ھے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ایسا فیصلہ جس سے انتشاراورفتنہ پھیلنے کا خطرہ ھو، کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ھے خصوصا جب شریعت میں ایک ھی مسئلہ پر کئی حکم موجود ھوں توحالات کی ضرورت دیکھتے ھوئے وہ حکم اختیار کیا جائے جس سے براد ری میں سکون اور یگانگت کی فضا بن سکے ۔ مسلمان رشتہ داروالدین بھائی بہن ملا زمت اور تجارتی ضروریات کی وجہ سے مختلف علاقوں میں رھائش رکھتے ھیں ۔ ھر علاقے کے اسلامی مرکزکو مختلف نسل اور مسلک کے لوگ اپنے مسلک کے حساب سے چلاتے ھیں اگرچہ وھاں عبادت کے لئے تمام مسلمان جاسکتے ھیں اور الحمدللہ سب کی عبادتیں وھاں صحیح ھوتی ھیں۔ لیکن سال کے ان تین مہینوںمیں اگررویت ھلال کے فیصلے مختلف ھوں توآپس میں کمیونٹی کے علا وہ خاندان بھی بٹ جاتے ھیں کیونکہ وہ اپنی مسجد کے تابع ھوتے ھیں ۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ وقت ھوتا ھے کہ والدین تو اپنے بچوں کو عید کی مبارک دینا چاھتے ھیں مگروہ جواب میں کہتے ھیں کہ نہیں ھمارا روزہ ھے۔ اسی طرح نوجوان نسل اور بچے اپنے ھم عمروں کے ساتھ آپس میں عید کی خوشیاں پلان کرتے ھیں مگرپتہ چلتا ھے کہ آج وھاں روزہ ھے (ممکن ھے کہ وہ حرام روزہ ھی ھو) بلکہ اب توایک ھی گھرمیں دو رمضان یا دو عیدیں ھوتی ھیں ۔ اللہ رحم فرمائے آمین ۔
صرف آسٹریلیا میں رویت ھلال کو محد ود رکھنے والے حضرات سے میں نے ھمیشہ یہی درخواست کی ہے کہ جب مشرقی آسٹریلیا (سڈ نی، ملبورن، برسبین ، کینبرا) میں چاند نظر نہ آنے کی صورت میں آپ وسطٰی آسٹریلیا (ڈارون، ایڈ یلیڈ، ایلس سپرنگ) اور مغربی آسٹریلیا (پرتھ ، پورٹ ھیڈ لینڈ، کارگورلی وغیرہ) سے شہادت کی اطلاع آنے کے لئے انتظارکرکے وھاں کی شہادت قبول کرسکتے ھیں تو اسی سنٹرل اور ویسٹرن آسٹریلیا کے مشترکہ تین ٹائم زون میں موجود اسلامی ممالک انڈ ونیشیا، ملائشیا اور برونئی دارالسلا م سے شہادت کیوں نہیں قبول کرسکتے؟حالانکہ یہ امام اورعلماء حضرات خود اس بات کو تسلیم کرتے ھیں کہ شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ تو پھر کیوں یہ حضرات شریعت کے فیصلے کو نظرانداز کرتے ھوئے اپنی رائے پر اصرار کرتے ھیں اورعوام کو پریشان کرتے ھیں۔
اس د وران حق تعالی شانہ کا ایک خاص کرم یہ ھوا کہ مارچ ۲۰۰۰ء میں مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی آسٹریلیا تشریف لائے اورروٹی ھل کی مسجد میں اپنے بیان کی ایک نشست کے بعد ھم نے ان کے سامنے اس مسئلہ کے بارے میں ان کی عالمانہ رائے کی د رخواست کی تو انہوں نے مجھ ناچیز کے طریق کار کو پسند کیا اوراس کی توثیق کرتے ھوئےفتوے کی شکل میں ایک تحریرپرد ستخط بھی فرمائے جو اس وقت وھاں موجود سات علماء نے لکھا تھا ۔ یہ طے ھوا تھا کہ اس کی نقل ھم سب کو ملے گی مگر افسوس آج تک نہ ملی۔
میرا طریق کار یہ ھے جو میں نے ۱۹۸۸ء میں کانفرنس سے واپسی کے بعد طے کیا کہ آسٹریلیا کے تمام بڑے بڑے شہروں میں مسلمان ذ مہ دار حضرات سے د رخواست کی کہ وہ ھمارے لئے اپنے علاقوں میں چاند دیکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ، جزائرفجی، ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور اور برونئی دارالسلام میں بھی ایسے ھی ذ مہ دار حضرات سے درخواست کی۔ ان سب میں اکثریت امام حضرات یا مساجد کے ذ مہ دار حضرات کی تھی۔ ھمارا ملک آسٹریلیا اتنا بڑا ھےمگرایکویٹر سے جنوب میں د وری کی وجہ سے اس میں چاند نظرآنا کافی مشکل ھے حالانکہ اس کے اند ر پانچ ٹائم زون ھیں اگرچہ مشہور صرف تین ھیں ۔ ان پانچ میں سے تین زون ھمسایہ اسلا می ممالک سے مشترکہ ھیںجو ایکویٹر پر واقع ھیں۔ چونکہ وھاں چاند نظر آنے کے امکانات زیاد ہ روشن ھیں اس لئے عموما وھاں روئت ھلال آسانی سے ھوجاتی ھے۔ جس کانتیجہ یہ ھے کہ الحمد للہ ایک طرف تو روئت ھلال کا حکم بھی پورا ھوجاتا ھے، ھمسایہ اسلامی ممالک کی شہادت بھی شامل ھوجاتی ھے جوعین شرعی ھے اور د وسری طرف ھمیں پوری براد ری کے ساتھ ایک ھی دن ان ایام کو منانے کی سعادت حاصل ھوجاتی ھے اورالحمد للہ یہ سلسلہ آج کل بھی جاری ھے۔ چنانچہ اس سال عیدالفطر۲۰۲۰ء کے موقعہ پر جزائر فجی ، انڈ ونیشیا و برونئی میں الحمد للہ چاند دیکھا گیا اورھمارے ذ مہ دار حضرات نے اس کی تصد یق کی جس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا اورسب نے اکشریت کے ساتھ عید کی مگر افسوس کہ ھرسال کی طرح د وھی عید یں ھوئیں ۔
اب آپ حضرات خود ھی فیصلہ فرمائیں کہ ان خاند انوں کی خوشی اورمسرت کا کیا ٹھکانہ ھوتا ھوگا جب وہ ایک ھی د ن رمضان اور عید ین منائیں ۔ حد یثوں میں حضور اکرم ﷺ کا پاک ارشاد ھے کہ جب اللہ کے بندے زمین پر جمع ھو کر ایک ھی وقت میں مل جل کرخوشی اورمسرت سے اللہ تعالی کی عبادت ، بندگی، بزرگی اورشکرکرتے ھیں تو ایسے اجتماع آسمان کے فرشتوں کو زمین پراپنی نورانیت کی وجہ سے اسی طرح چمکتے نظر آتے ھیں جیسے ھمیں آسمان پر ستارے اوراللہ تعالی فرشتوں سے فرماتے ھیں کہ اس بندہ کا انعام کیا ھے جس نے اپنی مزدوری [وقت پر شروع کی اور وقت پر] پوری کی؟ فرشتے عرض کرتے ھیں یااللہ تعالی وہ اپنی پوری مزد وری کا حقدارھے اوریہ لوگ آپ کی خوشنودی اورمغفرت مانگ رھے ھیں۔ اللہ تعالی فرماتے ھیں کہ میرے عزت و جلال کی قسم، میری بادشاھت کی قسم، میرے علو شان کی قسم میں نے ان کو معاف کیا ان کو گناھوں سے پاک کیا۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ھیں کہ پھر وہ لوگ بخشے بخشائے اپنے گھروں کوواپس جاتے ھیں۔ مگرایک طرف تو لاکھوں میں اجتماع ھو اورد وسری طرف چند ھزار ھوں کہ جنکوبھیان لاکھوں لوگوں میں شامل کیا جاسکتا تھا مگران کی صحیح رھنمائی نہ کی گئی توان کی کیا خطا ھے اگرچہ اجر ان کو بھی پورا ھی ملےگا مگرقیامت کے دن جب سچائی ان کے سامنے ھوگی تو ان کو کتنا افسوس ھوگا کہ ان کوبلاوجہ ھرسال اپنوں کے ساتھ خوشیاں منانے سے محروم رکھا گیا اوراس وقت کون ان فتنوں کا ذ مہ دار ھوگا؟
اللہ تعالی ھم سب کو سچی راھنمائی اور ھدایت عطا فرمائے ۔ آمین۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔