ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کی جانب سے جاری دستاویزات کے مطابق روپے کی قدر میں 30 پیسے کے اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت 5 ماہ بعد 161.82 روپے ہوگئی۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ای سی اے پی کے چیئرمین ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ‘رواں سال دسمبر تک ڈالر کی قدر 160 روپے تک گرنے کا امکان ہے جس کی بنیادی وجہ درآمدات میں کمی اور بیرونی ترسیلات زر میں اضافہ ہے’۔
روپے کی قدر میں اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ میں ریکارڈ 79 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سرپلس کے اعلان کے ایک روز بعد آیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ستمبر مسلسل چوتھا مہینہ تھا جس میں ملک میں ترسیلات زر کی مد میں 2 ارب ڈالر سے زائد آئے، ستمبر میں ترسیلاتِ زر میں گزشتہ برس ستمبر کے مقابلے میں 31 اعشاریہ 2 فیصد اور اگست کے مقابلے میں 9 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 ماہ کے دوران ماہانہ 2 ارب ڈالر بیرونی ترسیلات کی شکل میں موصول ہوئے اور تیل کی درآمدات میں کمی، جی20 ممالک کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی اجازت اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں برآمدات میں اضافہ روپے کے استحکام کا موجب بنا۔
خیال رہے کہ 28 اگست کو ڈالر کی قدر 168.42 روپے کی تاریخی سطح پر پہنچ گئی تھی لیکن اب تک اس میں 3.9 فیصد یا 6 روپے 61 پیسے کی کمی آگئی ہے۔
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ‘اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکنگ کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافے کے لیے کیے گئے اقدامات نے بھی حالیہ ہفتوں میں روپے کی قدر میں بہتری میں مدد دی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بیرونی ترسیلات زر میں اضافے کی ایک اہم وجہ کووڈ-19 کی وجہ سے پروازوں کی منسوخی ہے جو 6 ماہ سے جاری ہے۔
انٹرمارکیٹ سیکیورٹیز کے شعبہ ریسرچ کے سربراہ سعد علی نے روپے کی قدر میں اضافے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بیرونی اکاؤنٹ میں کمزوری کے باعث ہوا ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) بھی پاکستانی حکام کو روپے کی قدر کو مارکیٹ کے حالات کے مطابق رکھنے کی تجویز دے رہا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں برس ہونے والے مخصوص دوطرفہ اور شراکتی مالی تعاون بھی کرنسی کے توازن سے مماثلت نہیں رکھتے اور کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل تیسرے مہینے بھی سرپلس جارہا ہے جو ناگزیر تھا۔
سعد علی نے کہا کہ ‘ہمارے خیال ہے میں اس استحکام کو جاری رہنا چاہیے تاہم اگلے برس قرض کی ادائیگی بھی کرنی ہے جبکہ حال ہی میں جی20 نے قرضوں کی ادائیگی میں مزید 6 ماہ کی چھوٹ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے’۔
اگلے 6 ماہ کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا خیال ہے کہ پاکستانی روپیہ کی قدر میں اگلے برس اتار چڑھاؤ ہوسکتا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا 6 ارب ڈالر قرض بہتری کے لیے مددگار ہونا چاہیے’۔
بی ایم اے کیپٹل ریسرچ کے سربراہ فیضان احمد کا کہنا تھا کہ ‘روپے کی قدر میں اضافے کی بنیادی وجہ ادائیگوں کے توازن میں بہتری ہے، کرنٹ اکاؤنٹ گزشتہ 3 ماہ سے بدستور سرپلس جارہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جون 2020 کے رئیل ایفیکٹیو ایکسچینج ریٹ (آر ای ای آر) سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر دباؤ میں ہے لیکن اس کے باوجود روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی وجہ سے بھی کرنسی میں مثبت اثر پڑا ہے’۔