ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے القاعدہ، طالبان اور دیگر کالعدم یا دہشت گرد تنظیموں یا ان سے وابستہ عناصر پر نئی پابندیاں عائد کیے جانے کی تردید کردی۔
خیال رہے کہ 18 اگست کو وزارت خارجہ نے 2 سیچوریٹی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیے تھے جس میں افغان طالبان سمیت متعدد دہشت گرد عناصر پر اثاثے منجمد، سفر اور اسلحے سے متعلق پابندیوں کا حکم دیا گیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ زاہد چوہدری نے کہا تھا کہ ’18 اگست کو جاری کردہ ایس آر او صرف عملی اقدام کے طور پر پہلے سے اعلان کردہ ایس آر اوز کو مستحکم اور دستاویزی بناتے ہیں اور پابندیوں کی فہرست یا پابندیوں کے اقدامات میں کسی قسم کی تبدیلی ظاہر نہیں کرتے‘۔
نہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی طالبان پابندی کمیٹی، طالبان اور ان سے منسلک اداروں یا افراد پر پابندی کے معاملات طے کرتے ہیں۔
تاہم اب مزید وضاحت کے لیے ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ وزارت خارجہ سے جاری ایس آر اوز میں ان افراد اور اداروں کے نام شامل ہیں جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرادادوں کے تحت 2 منظور شدہ رجیم میں پابندیاں لگائی گئی تھیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایس آر او کا اجرا معمول کی بات ہے جنہیں وقتاً فوقتاً جاری کیا جاتا ہے اور وزارت خارجہ کی جانب سے اس طرح کے ایس آر اوز بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے قانونی ضرورتوں کے طور پر پہلے بھی جاری کیے جاچکے ہیں اور اس سے قبل گزشتہ ایس آر اوز 2019 میں جاری کیے گئے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ جاری کردہ ایس آر اوز اقوامِ متحدہ کے نامزد کردہ اداروں یا افراد کی فہرست میں شامل معلومات کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے ایک طبقے میں پاکستان کی جانب سے ایس آر اوز کے ذریعے نئی پابندیاں عائد کرنے کی رپورٹس حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اسی طرح ایس آر او میں شامل معلومات کی بنیاد پر بھارتی میڈیا کے کچھ حلقوں میں کیے گئے یہ دعوے کہ ’پاکستان فہرست میں درج افراد کو اپنی سرزمین پر موجودگی کا اعتراف کررہا ہے‘، جو بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزارت خارجہ کے جاری کردہ دو علیحدہ نوٹیفکیشن میں کالعدم تنظیموں، دہشت گرد عناصر، افراد کے تمام اثاثے، کھاتے یا مالیاتی ذرائع بغیر کسی پیشگی نوٹس کے فی الفور منجمد کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق کوئی شخص فنڈز، معاشی وسائل، مالیاتی اثاثوں یا کسی بھی صورت میں ان عناصر کو براہ راست یا بلواسطہ عطیہ نہیں دے سکے گا۔
نوٹیفکیشن میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی کے جاری کردہ دہشت گردوں کی نئی فہرست کی بھی منظوری دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کی پابندی کمیٹی نے سابق طالبان حکومت کے وزرا، گورنر اور رہنماؤں کو بھی دہشت گردی کی مصدقہ فہرست میں شامل کیا تھا اور اس میں پاک، افغان سرحدی علاقوں میں روپوش کالعدم تحریک طالبان کے افراد بھی شامل تھے۔
نوٹیفکیشن میں حافظ محمد سعید، مولانا محمد مسعود اظہر، ملا فضل اللہ (عرف ملا ریڈیو)، ذکی الرحمٰن لکھوی کے علاوہ محمد یحییٰ مجاہد، انٹر پول کو مطلوب عبدالحکیم مراد پر بھی پابندی کی توثیق کر دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ پابندی فہرست میں کالعدم تحریک طالبان کے نور ولی محسود، ازبکستان آزادی تحریک کے فضل رحیم، طالبان سے تعلق رکھنے والے جلال الدین حقانی، خلیل احمد حقانی اور یحیٰی حقانی بھی شامل تھے۔
مذکورہ بالا پابندیاں جن پر عائد کی گئیں ان میں محمد سلیم حقانی، نصیر الدین حقانی، سعید محمد حقانی، سراج الدین حقانی،بھارتی ریاست مہاراشٹر کے داؤد ابراہیم کاشکر بھی شامل تھے، علاوہ ازیں کالعدم تحریک طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، لشکر جھنگوی کی قیادت، تحریک طالبان پاکستان کے ذیلی گروپ طارق گیدڑ گروپ کے تمام عہدیداران بھی پابندیوں کا شکار ہیں۔
نوٹیفکیشن میں حرکت المجاہدین، الرشید ٹرسٹ پاکستان، الاختر ٹرسٹ انٹرنیشنل پاکستان، جیش المہاجرین الانصار، کالعدم جماعت الاحرار، خطبہ امام البخاری تنظیم، رابطہ ٹرسٹ لاہور کے بھی تمام عہدیداران اور رہنماؤں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
وزارت خارجہ کے اعلامیے کے تحت ریوائیول آف اسلامک ہیریٹیج سوسائٹی پاکستان، ازبکستان اسلامی تحریک، داعش عراق، روس کے خلاف امارات قفقاض تنظیم اور اس کے عہدیداران اور چین کی مسلم آزادی تنظیم کے عبدالحق اوگر پر بھی پابندی لگادی گئی، ساتھ ہی الحرمین فاونڈیشن اسلام آباد پاکستان، حرکت الجہاد اسلامی پاکستان، اسلامی جہاد گروپ پاکستان پر پابندی لگادی گئی تھی۔