حکومت سے جارحانہ انداز میں نمٹنے کا وقت آ گیا ہے، نواز شریف

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے پارٹی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ وہ محرم الحرام کے بعد دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے جارحانہ سیاست کریں۔

نواز شریف اس مقصد کے لیے جلد حزب اختلاف کی کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) بلانا چاہتے ہیں، اگرچہ مرکزی دھارے میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا خیال ہے کہ وہ ایم پی سی کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے مبینہ طور پر نواز شریف کی اس خواہش کا پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سے اظہار کیا ہے کہ وہ محرم کے بعد حکومت کو سخت وقت دینے کے لیے ‘باہمی ایجنڈا’ تیار کرے۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے قریبی ساتھی نے اتوار کو ڈان کو بتایا کہ نواز شریف کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے جارحانہ انداز میں نمٹا جائے، اس مقصد کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو آنے والے دنوں میں کارکنوں کو متحرک کرنا ہوگا تاکہ وہ حزب اختلاف کے مشترکہ اقدام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اسلام آباد میں دھرنے سے قبل ان کی پارٹی کو اکیلا چھوڑ دینے اور حال ہی میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت پر مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے خوش نہیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ڈان کو بتایا کہ کوشش ہو رہی ہے کہ کثیر الجماعتی اجلاس منعقد کیا جائے جبکہ رہبر کمیٹی کا اجلاس اگلے ہفتے ہوگا جس میں ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے گی۔

محرم کے بعد پی ٹی آئی حکومت کو سخت وقت دینے کے پارٹی کے منصوبے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ فیصلہ ایم پی سی کے پلیٹ فارم پر لیا جائے گا کیونکہ مسلم لیگ (ن) ہر محاذ پر حکومت کی ناکامی کے تناظر میں تازہ انتخابات کے لیے کوشاں ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ نے ڈان کو بتایا کہ حزب اختلاف جلد ہی ایم پی سی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر محرم کے بعد “جارحانہ” سیاست کرنے پر راضی ہوجائے گی، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دو سال بیت چکے ہیں اور اس کی مکمل ناکامی اس بات کی متقاضی ہے کہ حزب اختلاف اسے مزید وقت نہ دے۔

ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو متحرک کردیا گیا ہے اور وہ قیادت کی ایک کال پر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

ایم پی سی کے اجتماع کے انعقاد میں درپیش مسائل کے بارے میں پوچھے جانے پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اتنے زیادہ مسائل نہیں ہیں، حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس کے سلسلے میں رابطے میں ہیں اور جلد ہی اس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسلم لیگ (ن)، مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات کو دور کرے گی تو رانا ثنا اللہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ مولانا احتجاجی مہم وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں انہوں نے [نومبر میں] چھوڑی تھی۔

واضح رہے کہ اطلاعات ہیں کہ مولانا فضل نے اس یقین دہانی پراسلام آباد دھرنا ختم کردیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان مارچ 2020 تک استعفیٰ دے دیں گے۔

ادھر مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنان کی جرات کو دیکھ کر خوش ہو رہی ہے جہاں پارٹی کے نائب صدر مریم نواز کی ایک اراضی کے حصول کے معاملے میں لاہور میں نیب کے سامنے حاضر ہونے کے موقع پر پولیس کے ظلم کو رانا ثنااللہ نے بربریت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کارکنوں نے اس پر رد عمل ظاہر کیا اور احتجاج کیا کیونکہ ان کی قیادت ان کے درمیان موجود تھی۔

وہیں مریم نواز ممکنہ طور پر گرفتار پارٹی کارکنوں سے بھی ملاقات کریں گی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینئر رہنماؤں نے شریف خاندان کے اراکین کی رائے ونڈ میں ساڑھے تین ہزار کنال سے زیادہ اراضی کے غیرقانونی قبضے کے ایک نئے کیس میں مریم نواز کی نیب میں طلبی کے پیچھے وزیر اعظم عمران خان کو قرار دیا۔

انہیں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے کارکنوں کے رد عمل سے ایک نئی تحریک حاصل کرلی ہے جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے رہنماؤں کو نیب کے ذریعے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے، ان کا خیال ہے کہ اس “سخت رد عمل” سے انہوں نے کچھ حلقوں کو پیغام بھیجا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن سڑکوں پر پی ٹی آئی کی حکومت کی طاقت حاصل کرنے کے اہل ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ چونکہ گزشتہ نومبر میں ان کے والد کے لندن روانگی کے بعد مریم نواز کی طرف سے اختیارات کے ساتھ ‘تفہیم’ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی، لہٰذا ان کے خلاف اراضی کا نیا مقدمہ وزیر اعظم خان کے کہنے پر شروع کیا گیا کیونکہ وہ شریف خاندان کو بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتے، شریف خاندان کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مریم نواز کے خلاف نیب کی نئی تحقیقات کا آغاز کرنے میں ان اختیارات کا کوئی کردار ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ طاقتور حلقوں اور شریف خاندان کے درمیان ‘افہام و تفہیم’ کے تحت مریم نواز اپنے والد کی دیکھ بھال کے لیے لندن روانہ ہونے والی تھیں لیکن نواز شریف کے جانے پر وزیر اعظم خان کی مبینہ ناراضی نے انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا تھا، تاہم یہ اطلاعات ہیں کہ ‘نواز شریف کے ساتھ ہوئے سمجھوتے’ کے تحت مریم نواز ملک میں رک گئی تھیں۔

ذرائع کا کہنا تھاکہ ‘مفاہمت کی سیاست’ کی وکالت کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر اس پر دوبارہ غور کرنا ہو گا۔