اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منتخب صدر وولکان بوزکیر نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر تنازع کی قراردار جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی کنجی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی اور سفارتی ذرائع سے علاقائی سیکیورٹی کو برقررا رکھنا چاہیے اور مشکل چیلنجز کو بات چیت اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
بوزکیر نے کہا کہ آج ہونے والی گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس تنازع پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور اگر فریقین نے اس معاملے میں میری معاونت کی درخواست کی تو میں اپنے مینڈیٹ کے مطابق کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم دونوں کا اقوام متحدہ کے کے چارٹر پر پورا یقین ہے اور ہم مختلف ملکوں کی شرکت پر یقین رکھتے ہیں، ہم نے کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی گفتگو کی اور ہمارا ماننا ہے کہ اس وقت تک کوئی محفوظ نہیں جب تک سب محفوظ نہ ہو جائیں اور اس بات پر بھی گفتگو کی کہ ویکسین کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف ویکسین کی تیاری ہی حل نہیں بلکہ ہر کسی کے لیے اس کی دستیابی اور قوت خرید بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ یہ بات بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر دو قراردادیں آ چکی ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے منتخب صدر کو جموں و کشمیر میں تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال سے بھی آگاہ کیا، مقبوضہ کشمیر میں ایک سال سے جاری فوجی محاصرے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سیز فائر کی خلاف ورزیوں، سرچ آپریشنز اور انسانیت سوز زیادتیوں، یکطرفہ اقدامات اور ان سے خطے کے امن و سیکیورٹی کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں افغانستان میں صورتحال پر بھی منتخب صدر سے تبادلہ خیال کیا اور افغانستان میں امن اور مفاہمت کے سلسلے میں پاکستان کے کردار، وہاں درپیش چیلنجز، مذاکراتی عمل میں مثبت پیشرفت اور گزشتہ روز لویا جرگہ کی جانب سے لیے گئے فیصلے سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیر اعظم کے دل کے قریب چار اقدامات سے بھی اقوام متحدہ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کے منتخب صدر کو آگاہ کیا جس میں ماحولیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا کا مقابلہ، غیرقانونی مالی بہاؤ کا مقابلہ اور ترقی پذیر دنیا کے لیے اقدامات اٹھانا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ملاقات بہت اچھی اور مثبت رہی اور میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے وقت نکال کر پاکستان کا دورہ کیا، آپ اس سے قبل بھی مختلف کاموں کے سلسلے میں یہ ان کا ممنتخب صدر کی حیثیت سے پہلا دورہ ہے۔
وولکان بوزکیر نے کہا کہ میں شاہ محمود قریشی کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور ان کی جانب سے دی گئی دعوت پر دورہ پاکستان آمد پر انتہائی خوشی محسوس کر رہا ہوں۔
انہوں نے بلوچستان کے علاقے چمن میں ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں پر تعزیت بھی کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ دراصل جولائی کے آخر میں ہونا تھا لیکن بدقسمتی کچھ تکنیکی فلائٹ کے مسائل کے سبب میں نہیں آ سکا تھا لیکن ترکی سے جنرل اسمبلی کا صدر منتخب ہونے والے کسی بھی شہری کے لیے اس برادرانہ ملک کا دورہ کرنا ہمیشہ بہت خوش آئند ہوتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے بہت پرانے دوستانہ مراسم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں پہلے بھی مختلف ذمے داریوں کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کر چکا ہوں اور آج مجھے خصوصی طور پر منتخب صدر کی حیثیت سے دورے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور یہ دورہ میری نیویارک روانگی سے پہلے ہوا ہے جہاں میں منتخب صدر کی ذمے داریاں سنبھالوں گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منتخب صدر نے کہا کہ میں اسلام آباد میں شاندار انداز میں مہمان نوازی پر پاکستان کا مشکور ہوں، پاکستان اقوام متحدہ میں انتہائی اہم ملک ہے اور ہماری طویل دوستی اور برادارانہ تعلقات سے قطع نظر اقوام متحدہ کے نقطہ نظر سے یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔
انہوں کہا کہ پاکستان چین میں گروپ آف 77 کا رکن ہے اور اسلامی ممالک کی تنظیم کا بھی رکن ہے، پاکستان محض ایک رکن نہیں بلکہ ایک متحرک رکن ہے جہاں ہر کسی کی نگاہیں اس بات پر مرکوز ہوتی ہیں کہ پاکستان کیا تجاویز دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منتخب صدر نے کہا کہ پاکستان نے امن دستوں سمیت اقوام متحدہ کے کاموں میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میری موجودگی کے دوران ہماری نگاہیں پاکستان سے قریبی روابط پر مرکوز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انکشاف کیا کہ میں ایک پاکستانی سفارتکار کو اپنی کابینہ کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے منتخب کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اقوام متحدہ کے معاملات میں وسیع تجربے سے وہ ہمارے دفتر میں اہم کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں نیویارک میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم کے ساتھ بھی قریبی روابط پر مرکوز ہیں جو ایک انتہائی قابل سفارتکار ہیں۔
وولکان بوزکیر نے کہا کہ میری وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی، میں اس ملاقات پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں اور ان کے ساتھ گفتگو سے بہت متاثر ہوا، وہ دنیا کی اہم سیاسی شخصیت ہیں اور خطے اور دنیا کے امن و استحکام کے لیے ان کے پاس ایک سوچ موجود ہے جبکہ ماحولیاتی تبدیلی، مشکلات سے دوچار ملکوں تک رسائی جیسے معاملات پر بھی گہری نظر ہے، ہماری نظریں بھی اسی جانب مرکوز ہیں۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کا کردار ضرورت مند ملکوں کے لیے زیادہ ہونا چاہیے بجائے ان ملکوں کے جو اقوام متحدہ کے بغیر بھی چل سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے ایک سال کے عرصے میں یہ چیز بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی کہ میں اقوام متحدہ کی ساکھ کو بھی بہتر بناؤں، اس سال اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ ہے جو ایک تاریخی لمحہ ہے۔
منتخب صدر نے کہا کہ ہمیں مختلف ملکوں میں جاری تنازعات میں بڑے انسانی بحرانوں کا سامنا ہے اور اب ہمیں کورونا وائرس کی وبا کی شکل میں عالمی بحران اور چیلنج کا سامنا ہے، یہ ایک ہیلتھ ایمرجنسی ہے بلکہ اس کے ہمارے معاشرے اور معیشت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کورونا وائرس سے پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کے لیے ایک مثال ہے جس نے بہترین پالیسیاں بناتے ہوئے کورونا سے عمدہ انداز میں نمٹا اور پاکستان نے دنیا کے کئی ممالک سے بہتر کارکردگی دکھائی۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں سیشن کے لیے منتخب صدر وولکن بوزکر پیر کو وزارت خارجہ پہنچے تو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے معزز مہمان کا خیر مقدم کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نو منتخب صدر نے وزارت خارجہ کے لان میں پودا لگایا۔
بعدازاں وولکان بوزکیر نے وزارت خارجہ نے میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، اس موقع پر سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، ڈی جی یو این اور وزارت خارجہ کے سینئر افسران نے شرکت کی۔
دوران ملاقات دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے متعلقہ امور، اجلاس کے ایجنڈے سمیت باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال
وزیر خارجہ نے وولکن بوزکر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کیلئے صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کے لیے جاری کیا گیا ایجنڈا خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا 75واں اجلاس اس لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہو گا کیونکہ دنیا ایک طرف کورونا کے عالمی وبائی چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف ہم عالمی معاشی بحران کو پنپتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان امسال وبا کے تناظر میں جنرل اسمبلی کے انعقاد کے طریقہ کار کے فیصلے سے متفق ہے، ہمیں اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ وبائی صورتحال کے پیش نظر عالمی رہنماؤں کی کثیر تعداد میں جنرل اسمبلی اجلاس میں روایتی شرکت مناسب نہ ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ کورونا عالمی وبائی چیلنج سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر جامع اور مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔