آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ کے خاتمے اور تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واقع پاکستانی سفارت خانے پہنچ گئے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سفارتی تناؤ کے باعث ملک کو ریاض کی جانب سے مالی اعانت کے حوالے سے بھی خدشات درپیش ہیں۔
برطانوی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق سعودی عرب میں واقع پاکستانی سفارت خانے کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صبح 10 بجے ریاض پہنچے۔
اس حوالے سے عسکری ذرائع نے بتایا کہ آرمی چیف کے ہمراہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل فیض حمید بھی موجود ہیں۔
یاد رہے کہ دو سینئر فوجی حکام نے 9 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا تھا کہ ریاض پاکستان کی تنقید پر سخت ناراض ہے کہ سعودی عرب کشمیر کے علاقائی تنازع پر کچھ نہیں کر رہا۔
تاہم گزشتہ ہفتے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے تصدیق کی تھی کہ آرمی چیف سعودی عرب کا دورہ کریں گے اور سرکاری سطح پر یہ بتایا گیا تھا کہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا اور ‘بنیادی طور پر یہ فوجی امور’ پر مبنی تھا۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے غیر معمولی طور پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
اے آر وائی نیوز پر ایک ٹاک شو میں شرکت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر اسلامی تعاون تنظیم، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ دسمبر میں سعودی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی تھی اور اب پاکستانی، ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
خیال رہے کہ او آئی سی کے کشمیر سے متعلق غیر فعال ہونے پر اسلام آباد میں مایوسی گزشتہ کئی ماہ سے بڑھ رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے فروری میں ملائیشیا کے دورے کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور ہماری صفیں تقسیم ہے، ہم کشمیر سے متعلق او آئی سی کے اجلاس میں مجموعی طور پر اکٹھے تک نہیں ہو سکتے۔
یاد رہے کہ ترکی، ملائیشیا اور ایران نے بھارت کی طرف سے کشمیر کے الحاق کو یکساں طور پر مسترد کیا تھا اور مقبوضہ وادی میں کشمیریوں پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ادھر دفتر خارجہ نے اگلے ہی روز شاہ محمودقریشی کے ‘متنازع’ بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ان کا بیان عوام کے جذبات اور او آئی سی سے مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کی توقعات کی عکاسی کرتا ہے’۔
دفتر خارجہ کی سابق ترجمان عائشہ فاروقی کا ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ ‘پاکستان کے عوام کی او آئی سی سے بہت زیادہ توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں جس کی وجہ تنظیم اور اس کے رکن ممالک سے ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔’
تاہم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے اسے ‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ’ قرار دیا تھا۔
اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں شہباز شریف نے کہاتھا کہ ‘شاہ محمود قریشی کا برادر ملک سعودی عرب سے متعلق بیان افسوسناک اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، موجودہ حکومت کے بُرے رویے سے پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔’
اپنی دوسری ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘پی ٹی آئی حکومت کی کشمیر کے حوالے سے کوئی سمت نہیں ہے، اس انتہائی اہم معاملے پر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا سنجیدگی سے بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے، حکومت بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنا کیس موثر طریقے سے پیش کرنے میں کیوں ناکام ہوئی؟’۔