تحریک عدم اعتماد کے مطالبے سے بلاول نے عمران خان کو وزیراعظم تسلیم کرلیا، شاہ محمود

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری تحریک عدم اعتماد لانے کا کہہ رہے ہیں اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ آپ نے آئینی طور پر عمران خان کو وزیراعظم تسلیم کرلیا ہے اس لیے یہ کہنا بند کردیں کہ وہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں، انہیں پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہے۔

ملتان میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ایک غیر فطری اتحاد ہے، اور یہ اتحاد دیر پا دکھائی نہیں دیتا، وقتی طور پر کچھ مصلحتوں کے تحت یکجا ہیں یہ بکھر جائیں گے، جس کا آغاز ہوچکا ہے، پہلے استعفے دینے کا فیصلہ کیا لیکن پھر اس میں یکسوئی نہیں رہی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے 31 جنوری کو لانگ مارچ پر اتفاق کیا لیکن اب بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے، ہم اس تحریک کا آئینی انداز میں سامنا کریں گے اور اسے شکست دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سوچ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اندر جو تفریق دکھائی دے رہی ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے، شیرازہ بکھر رہا ہے۔

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نئی حکومت سے رابطہ کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے جو ہم کریں گے، انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کی موجودہ سوچ اور ہماری بہت سے پالیسیوں میں اتفاق ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ میرا ایک پیغام ہے کہ امریکا میں ڈیموکریٹس آج سے 4 سال قبل حکومت چھوڑ کر گئے تھے، ان 4 سالوں میں دنیا، خطہ اور پاکستان تبدیل ہوا ہے اور اس بدلے ہوئے پاکستان کے ساتھ انہیں رابطہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ ان 4 سالوں میں بھارت بھی تبدیل ہوا ہے اور آج کیا وہ سیکیولر وہ شائننگ انڈیا دکھائی دے رہا ہے؟ نہیں بلکہ آج تو بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ وہ سیکولر انڈیا نہیں ہے بلکہ ہندو توا کی نئی شکل، آر ایس ایس کی سوچ کا نیا عملی مظاہرہ دکھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان نئے اصولوں پر، ایک نیا پاکستان، ایک نئی سوچ اور نئی ترجیحات پر ان سے رابطہ کریں گے اور ہم نے ایک جیو اسٹریٹجک پوزیشن سے جیو اکنامک پوزیشن کی طرف بہت بڑا شفٹ کیا ہے۔

بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے حوالے سے منانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت کی موجودہ پالیسیز سے کشمیری نالاں اور لا تعلق ہیں اور اقلیتیں خود کو غیر محفوظ تصور کررہی ہیں اس لیے ہمارے سفارتکار ان تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے۔

عوام کی مشکلات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کا ہے جس کا ہم سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے آج خود مختلف سیلز پوائنٹس کا جائزہ لیا جہاں آٹا وافر مقدار میں موجود ہے جو لوگوں کو مناسب قیمت میں مل رہا ہے جبکہ آٹے کا معیار بھی ٹھیک ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آٹے کی قیمت کنٹرول کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے اور آٹے کی قلت کو دور کرنے کے لیے کابینہ نے درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے چینی کی قیمتیں کم کیں لیکن ایک مافیا آیا جس نے چینی کی قیمتیں بڑھا دی، حکومت نے اس کا بھی تدارک کیا اور چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، ٹیکس میں رعایت دی گئی تا کہ چینی مناسب قیمت پر دستیاب ہو، جبکہ کاشتکار کو گنے کی درست قیمت دینے، ملیں وقت پر چلانے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت حکومت کو گیس کی قیمتوں کے بڑے چینلجز کا سامنا ہے، پوری قوم اس کا جائزہ لے کہ پاکستان کو ان معاہدوں میں کس نے جکڑا ہے، ان معاہدوں میں ہمیں مسلم لیگ (ن) نے جکڑا ہے جسے ہمیں نبھانا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی پارٹیاں مہنگائی کی دہائیاں دے رہی ہیں، حالانکہ مہنگائی کی بنیاد تو انہوں نے ہی رکھی تھی، ان کی بوئی ہوئی فصل ہم کاٹ رہے ہیں اور لوگ بھگت رہے ہیں لیکن بہتر منصوبہ بندی سے ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کا ارادہ ہے، آنے والے دنوں میں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔

براڈ شیٹ انکوائری کے معاملے پر جسٹس (ر) عظمت سعید کے تقرر پر اپوزیشن کے اعتراض کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جس کو بھی نامزد کریں گے اسے اپوزیشن مسترد کردے گی، عظمت سعید ایک قابل احترام جج رہے ہیں، جن کی دیانت کسی سے پوشیدہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو کس بات کی گھبراہٹ ہے؟ جب ان کا دامن صاف ہے تو کیوں پریشانی لاحق ہے، جب ہمارا فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں لے کرگئے تو ہم تو نہیں گھبرائے، ہم نے تو اپنے عطیات دہندگان کی تمام تر تفصیلات دیں، کیا مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی اپنے ڈونرز کی تفصیلات فراہم کرسکتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاہدے منسوخ کرنے میں پی ٹی آئی کا کوئی عمل دخل نہیں، میڈیا نے اس معاملے کو اتنا اٹھایا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، اپوزیشن کو اپنی صفائی دینی چاہیئے گھبرانا نہیں چاہیے۔