پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ گزشتہ 20 برس کے دوران بھارت کے تمام عزائم کا منہ توڑ جواب دیا ہے، 5 رافیل آجائیں یا 500، ہمیں اپنی استطاعت پر فخر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تیاری میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور بھرپور طریقے سے تیار ہیں۔
میجرجنرل بابر افتخار نے کہا کہ بھارت رافیل لے آئے یا ایس فور 100، ہمارے پاس ہماری اپنی تیاری ہے جس کا جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ بھارت نے 9.4 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے میں بھارت نے فرانس سے 36 رافیل لڑاکا طیارے خریدے ہیں اور فرانس 2021 کے آخر تک یہ تمام طیارے فراہم کرے گا جبکہ حال ہی میں ریاست ہریانہ کی امبالا ایئر بیس پر 5 رافیل طیارے پہنچے ہیں۔
راولپنڈی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امسال اب تک بھارت نے ایک ہزار 927 مرتبہ سیز فائر معاہدے کے خلاف ورزی کی۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ‘بھارت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں ایک سال سے نسل کشی اور مقبوضہ (خطے) میں انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک پہلے سے طے شدہ ، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خطے کی آبادی کو تبدیل کرکے بھارت وہاں رہنے والے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ابھی ایسا کوئی ظلم باقی نہیں رہا جس کا کشمیریوں نے برداشت نہ کیا ہو، نوجوانوں کو شہید اور انسداد دہشت گردی کے نام پر نامعلوم مقامات پر دفن کیا جارہا ہے’۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاری ہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ‘تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورموں پر حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر اجاگر کیا اور دنیا بھر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے’۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بین الاقوامی میڈیا نے مقبوضہ وادی میں بھارت کے اقدامات کو بے نقاب کردیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کشمیر میں انسانی حقوق پر زور دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور پیشہ وارانہ آرمی بھارت کی صرف ان پوسٹ کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں سے سیز فائر کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ 22 جولائی کو بین الاقوامی میڈیا کو ایل او سی تک مکمل رسائی دی گئی اور متاثرین سے بات چیت کی، اس کے برعکس بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں یو این مبصرین یا بین الاقوامی میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ بین الاقوامی میڈیا نمائندگان نے ایل او سی کے چری کوٹ سیکٹر پر بھارتی سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزیوں سے متاثرہ افراد سے ملاقات کی اور صورتحال کا مشاہدہ کیا تھا اور ایل او سی کے ساتھ موجود بھارتی فوجیوں کی چوکیاں بھی دیکھی تھیں۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ‘آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے’۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ’بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ان ماؤں سے آزادی کی اہمیت کے بارے میں پوچھیں جو اپنے بیٹے کو پاکستان کے پرچم سے دفن کرتی ہیں’۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان نے دنیا کے سامنے کشمیریوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں ‘کوئی کسر نہیں چھوڑی’۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوز بریفنگ کے دوران مسئلہ کشمیر، بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی، افغان امن عمل، آپریشن ردالفساد و دیگر معاملات پر بات کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں ذات پات اور نسلی تعصب کی جو آگ لگی ہے وہ پورے بھارت میں پھیل چکی ہے اور اب خطے کو بھی اس سے خطرہ لاحق ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار ان کا کہنا تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ناکام حملہ ہو یا دہشت گردوں کے لیے منی لانڈرنگ ان تمام کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس جون میں سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کی عمارت پر حملے کی کوشش کرنے والے 4 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار اور 3 سیکیورٹی گارڈ شہید ہو گئے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مختلف آپریشنز اور بارڈر منیجمنٹ کے ذریعے قبائلی علاقوں میں امن قائم ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بہترین کردار ادا کیا ہے۔
‘افغانستان میں امن کا مطلب ہے کہ پاکستان میں امن و امان’
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا اور امید کرتے ہیں کہ افغان امن عمل کا معاملہ جلد کامیابی سے ہمکنار ہو۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا مطلب ہے کہ پاکستان میں امن و امان۔
میجر جنرل افتخار بابر نے کہا کہ افغانیوں کے بعد اگر افغانستان میں کوئی امن چاہتا ہے وہ پاکستان ہے۔
‘احسان اللہ احسان سے متعلق مبینہ آڈیو ٹیپ میں الزامات قطعاً بے بنیاد ہیں’
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار اور اس کے بعد مبینہ آڈیو ٹیب سے متعلق سوال پر کہا کہ ‘مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں’۔
انہوں نے تصدیق کی کہ ہم ایک آپریشن کے دوران احسان اللہ احسان کو استعمال کررہے تھے اور وہ وہاں سے فرار ہوگیا تھا۔
میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ احسان اللہ احسان کو جتنا عرصہ پاکستان میں رکھا گیا اس دوران اہم معلومات حاصل کیں اور اس سے فائدہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کے ذمہ داران ہیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جارہی ہے’۔
خیال رہے کہ 17 فروری کو وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تصدیق کی تھی۔
‘ملک دشمن عناصر بلوچستان میں امن خراب کرنے کے در پر ہیں’
صوبہ بلوچستان سے متعلق انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کچھ عرصے سے ملک دشمن قوتیں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے در پر ہیں لیکن پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ان عزائم کو ناکام بنانے کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے جو مناسب وقت پر آپ کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت بلوچستان کے امن کے ساتھ ساتھ صوبے کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے مصروف عمل ہے، بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے اور خوشحال بلوچستان ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے افغان امن عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں امن ہوگا۔
‘پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ ہمارے خیال کی نمائندگی کرتا ہے’
پاکستان کے نئے سیاسی نقشے سے متعلق سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ہمارے خیال کی نمائندگی کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ‘ہم نے پوری دنیا پر واضح کیا ہے یہ ہے پاکستان اور پاکستان کی جغرافیائی حد جہاں پر علاقائی تنازع چل رہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے اور مرحلہ وار تمام بین الاقوامی فورمز پر نئے سیاسی نقشے کو پیش کیا جائے گا’۔
خیال رہے کہ وفاقی کابینہ نے پاکستان کے نئے سرکاری نقشے کی منظوری دے دی ہے جس میں مقبوضہ جموں و کشمیرسمیت دیگر متنازع علاقے بھی شامل ہیں۔
جس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم دنیا کے سامنے پاکستان کا سیاسی نقشہ لے کر آرہے ہیں جو پاکستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
‘پاک افغان سرحدی علاقے میں 90 فیصد باڑ کا کام مکمل کرلیا’
پاک افغان سرحد سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر کسی بھی خوشگوار واقعے سے متعلق معاملے کے حل کے لیے ‘سرحدی میٹنگ’ کا ایک طریقہ کار موجود ہے اور اسی وجہ سے باڑ لگانے کا عمل تیزی سےآگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرحدی لائن سے کوئی آگے نہیں بڑھتا اور اگر کسی جگہ مسئلہ ہوتا ہے تو بارڈر میٹنگ کا نظام موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘خیرپختونخوا میں پاک افغان سرحدی علاقے میں 90 فیصد باڑ کا کام مکمل کیا جاچکا ہے’۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ‘کچھ دشوار گزار علاقے تھے جن کی باڑ کا کام آخر کے لیے چھوڑا تھا، اب اس پر کام شروع ہوگیا ہے’۔
‘کلبھوشن یادیو پر کوئی ڈیل نہیں ہورہی ہے’
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی عالمی فیصلے کے تناظر میں دی جارہی ہے لیکن اس پر قطعاً کوئی ڈیل نہیں ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلبوشن یادیو دہشت گرد ہے جس نے پاکستان میں معصوم لوگوں کا خون کیا اس پر ڈیل کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی سیکیورٹی کا تعلق پاک آرمی سے ہےاور اسکی سیکیورٹی ہماری ذمہ داری ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
23 جولائی کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ اگر حکومت عالمی عدالت کو نہیں مان رہی تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم کلبھوشن یادیو کو این آر او دیں، حکومت نے تازہ ترین این آر او کلبھوشن یادیو کو آرڈیننس کی شکل میں دیا ہے۔
جس کے جواب میں 24 جولائی کو وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ ہم نے آرڈیننس لاکر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی تاہم عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کے تحت پاکستان کلبھوشن کے فیصلے پر مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کرنے کا پابند ہے لیکن بھارت چاہتا تھا کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ ہم نے آرڈیننس لاکر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی تاہم عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کے تحت پاکستان کلبھوشن کے فیصلے پر مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کرنے کا پابند ہے لیکن بھارت چاہتا تھا کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔
خیال رہے کہ 8 مئی 2017 کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں کیس دائر کردیا جس میں حکم امتناع اور آخری دلائل کے بعد آئی سی جے نے فیصلہ کیا کہ اسے رہا نہ کیا جائے لیکن قونصلر رسائی دی جائے۔