پاکستان نے بھارت کے شہر بینگلورو میں سوشل میڈیا میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے متعلق گستاخانہ پوسٹ کے خلاف شدید احتجاج ریکارڈ کروا دیا۔ دفترخارجہ سے جاری بیان کے مطابق ‘کرناٹکا بینگلورو میں ہندو اکثریتی برادری کی جانب سے حضرت محمد ﷺ سے متعلق گستاخانہ پوسٹ پر پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ذریعے شدید مذمت ریکارڈ کروادی یے’۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘اسلام کے خلاف گستاخانہ پوسٹ سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور یہ بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کی عکاسی ہے’۔
بھارت میں پیش آنے والے واقعے پر مزید کہا گیا کہ ‘مذکورہ علاقے میں مسلمان برادری پر توڑ پھوڑ اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا جھوٹا بیان دیا جارہا ہے’۔
دفترخارجہ نے کہا کہ ‘بھارت میں مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے واقعات براہ راست اور بلامبالغہ آر ایس ایس-بی جے پی کے مشترکہ ہندوتوا کے انتہاپسندانہ نظریے کا شاخسانہ ہے’۔
بھارت کو واضح کیا گیا کہ ‘اس واقعے کو تشویش کے طور پر دیکھا گیا ہے اور پاکستان میں سول سوسائٹی نے بھارت میں مسلم اقلیت کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے’۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ‘پاکستان نے مطالبہ کیا کہ بھارت کی حکومت اس واقعے کی تفتیش کرے اور مذہبی منافرت پھیلانے والے مجرموں کے خلاف فوری کارراوئی کی جائے’۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘بھارت کی حکومت سے اقلیتی برادریوں خاص کر مسلمانوں کے تحفظ، سلامتی اور بہتری کا مطالبہ کیا گیا’۔
بیان کے مطابق بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ‘اسلام کے خلاف نفرت انگیز تقریر اور مظالم کو روکنے کو یقینی بنایا جائے اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ کیا جائے’۔
پاکستان نے کہا کہ ‘عالمی برادری، اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے اقدامات کو یقینی بنایا جائے’۔
خیال رہے کہ بھارت کے آئی ٹی حب بینگلورو میں فیس بک پر حضرت محمد ﷺ سے متعلق ‘توہین آمیز’ پوسٹ کے بعد ہنگامے برپا ہوئے تھے اور پولیس اور ہزاروں مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوئے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کانگریس کے ایک ایم ایل اے اکھنڈا سرینواسا مورتھی کے قریبی عزیز کی جانب سے سوشل میڈیا سائٹ پر حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ‘توہین آمیز’ پوسٹ کے بعد اشتعال پھیلا تاہم اس کے بعد مذکورہ پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا گیا۔
اس گستاخانہ پوسٹ کے بعد ایک ہجوم مقامی قانون ساز کے گھر کے باہر پہنچا اور 2 گاڑیوں کو آگ لگادی۔
پولیس کے مطابق مذکورہ معاملے میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انڈیا (ایس ڈی پی آئی) سے تعلق رکھنے والے مزمل پاشا اور 6 دیگر لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔
دوسری جانب بینگلورو پولیس کے کمشنر کمال پنٹ نے ٹوئٹر پر پوسٹ میں بتایا کہ مذکورہ پوسٹ کرنے پر ایم ایل اے کے عزیز کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ اس کے ساتھ فسادات اور آتش زنی پر تقریباً 100 افراد کو بھی پکڑا گیا ہے اور اب صورتحال قابو میں ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بھارت میں اس طرح کے فسادات نے جنم لیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی وہاں مذہبی فسادات رونما ہوچکے ہیں، جس میں زیادہ تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بھارت میں 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد اس طرح کے فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال فروری میں بھی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی مذہبی فسادات ہوئے تھے جس میں 50 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی جبکہ مسلمانوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔