بجلی کی لاگت کم کرنے کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ ہوگیا، وفاقی وزیر

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ پائیدار بنیاد پر صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

معاون خصوصی برائے توانائی شہزاد قاسم کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کی جانب پہلا بڑا قدم یہ ہے کہ حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے آزاد اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ ایک بنیادی معاہدہ کیا ہے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ماضی میں مہنگے توانائی معاہدوں پر دستخط کیے گئے کیونکہ سابق حکومتیں صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئی پی پیز سے مذاکرات کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وزیراعظم عمران خان فوری بنیادوں پر مہنگی بجلی کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں لیکن موجود حکومت کے لیے یکطرفہ طور پر معاہدے ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کے تحت خاص بجلی گھر کی مجموعی صلاحیت کے بجائے حاصل اور استعمال بجلی کے لیے ادائیگی کی جائے گی جبکہ ایکوٹی کی واپسی امریکی ڈالر کے بجائے روپے میں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا 2030 تک مجموعی مکس توانائی میں قابل تجدید توانائی کا شیئر 20 سے 25 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ ہے، اس سے پیٹرولیم فیول پر انحصار کم ہونے اور بجلی کی پیداواری لاگت کم ہونے میں مدد ملے گی۔

آئی پی پیز کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی مفاہمت کی یادداشت (ایم او یوز) پر دستخط سے متعلق تفصیل بتاتے ہوئے معاون خصوصی برائے توانائی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں احتیاط برتنے ضرورت تھی کیونکہ آئی پی پیز کے ساتھ خودمختار ضمانتیں شامل تھیں۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ آئی پی پیز کے ساتھ حالیہ ایم او یوز میں حاصل کردہ اہم سنگ میل میں سے ایک پلانٹس کی ایندھن کی صلاحیت کا ٹیسٹ کرنا اور اس کے نتائج الیکٹرک ریگولیٹر کے ساتھ شیئر کرنا شامل ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آئی پی پیز کو نہ صرف نیپرا کی مقرر کردہ حد پر عمل کرنا ہوگا بلکہ بچت کے بارے میں بھی حکومت سے شیئر کیا جائے گا’، مزید یہ کہ اس سے بجلی کی لاگت کم کرنےمیں مدد ملے گی۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ تاخیر سے ادائیگی کا سرچارج حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو ادا کیا جائے گا جو اس سے قبل قبل کیبور پلس 4.5 فیصد تھا تاہم اسے کم کرکے اب صرف 2 فیصد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ پوری پاور پرچیز ریجیم کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے چونکہ موجود نظام آئی پی پیز کو ان کی نصد صلاحیت پر ادائیگیوں کی ضمانت دیتا ہے حالانکہ بجلی کی اصل خریداری بہت کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی پاور پرچیز ریجیم بنانے میں ایک سے 2 سال کے درمیان کا وقت لگے گا۔

تاہم انہوں نے یہاں یہ بھی واضح کیا کہ یہ ایم او یو واجبات کلیئر کرنے کے بعد ہی لاگو ہوگا، ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کے واپڈا کے مختلف ہائیڈرو پاور پلانٹس کے ٹیرف کو یکساں نرخوں پر معقول کیا جارہا ہے جبکہ فی الحال مختلعف منصوبے کی واپسی کی شرح مختلف تھی۔

ایک سوال کے جواب میں شہزاد قاسم کا کہنا تھا کہ ایم اویو پر دستخط ہوگئے اور کچھ وقت بعد صارفین اس کے اثر کو محسوس کریں گے لیکن انہوں نے یہ وقت نہیں بتایا کہ صارفین کب اس نئے معاہدے سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔