چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہاہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو جو استحقاق پاکستان میں حاصل ہے وہ مسلمانوں کو بھی نہیں اقلیتوں کا کوٹا ہے اس میں اپلائی کریں اسمبلی میں آئیں کسی کو اگر کوئی رکاوٹ ہے تو عدالتوں سے رجوع کریں ، ہم اقلیتوں کے مسائل حل کریں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے اقلیتوں کے قومی دن کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ میرے علم کے مطابق عدالت میں صرف قرآن پر حلف مسلمانوں سے لیا جاتا ہے،اقلیتوں سے حلف ان کی مذہنی کتاب پر لیا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اگر اقلیتوں کے عدالت میں حلف سے متعلق مسائل ہیں تو اٹارنی جنرل ان کو حل کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب سندھ ہائیکورٹ کا جج تھا تو ہندو برادری کے متعدد کیسز نمٹائے، آپ کہتے ہیں اقلیتوں کو کوٹا نہیں ملتا، پاکستان میں 5 فیصد کوٹا ہے ضرور ملے گا۔ انہوںنے کہاکہ اگر کسی اقلیتی رکن کو کوئی مسئلہ ہے تو بتائے ہم حل کریں گے،پاکستان کا 1973 کے آئین کا پہلا حصہ اقلیتوں سمیت تمام پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کا پاسدار ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 20 پاکستان کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 21 تمام مذہبوں کو بنا ٹیکس ادائیگی کے مذہبی عقائد پورے کرنے کا حق دیتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 22 تمام پاکستانی شہریوں کو بلا تفریق تعلیم کا حق دیتا ہے،آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت پاکستان کا ہر شہری آئین و قانون کی نظر میں برابر ہے، اقلیتوں کا کوٹا ہے اس میں اپلائی کریں اسمبلی میں آئیں۔ انہوںنے کہاکہ کسی کو اگر کوئی رکاوٹ ہے تو عدالتوں سے رجوع کریں، اقلیتوں کو جو استحقاق پاکستان میں حاصل ہے وہ مسلمانوں کو بھی نہیں،اقلیتوں کی کم عمر شادیوں کا نقطہ اٹھایا گیا۔ انہوںنے کہاکہ قانون میں کم عمر شادیوں کی اجازت نہیں، تھر پارکر میں اقلیتوں میں سے بچیاں مسلمانوں کے ساتھ شادی کر لیتی ہیں، اٹارنی جنرل پاکستان اقلیتی برادری کی کم عمر بچیوں کی شادی کا مسئلہ دیکھیں۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ نے 2014 ازخود نوٹس میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تمام پہلوئوں پر فیصلہ دیا، ون مین اقلیتی کمیشن نے مثالی کام کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان کے آئین کے تحت ہر شہری برابر ہے خواہ وہ کسی بھی برادری، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہو، کیلاش کے لوگوں بہت مہمان نواز ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ سکھ برادری پاکستان کا اہم حصہ ہے، سکھ برادری نے کرپا کو عدالتوں میں لیجانے کا نقطہ اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ عدالتوں میں کرپا لیکر جانے کی حد تک اجازت میں دے سکتا ہوں، کسی اور مقام پر کرپا لیکر جانے کی اجازت کیلئے اٹارنی جنرل سے رابطہ کریں۔