اس وقت سے’فیمنسٹ’ ہوں جب اس لفظ کا مطلب بھی نہیں پتا تھا، یاسرہ رضوی

پاکستان کی نامور اداکارہ یاسرہ رضوی کو آج کل ویب سیریز ‘چڑیلز’ کے بعد ہراسانی کے الزامات پر مبنی ڈرامے ‘ڈنک’ کا حصہ بننے پر تنقید کا سامنا ہے۔

اور اب یاسرہ رضوی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ چڑیلز نے مجھے فیمنسٹ نہیں بنایا بلکہ اس وقت سے’فیمنسٹ’ ہوں جب اس لفظ کا مطلب بھی نہیں پتا تھا۔

سم تھنگ ہاٹ کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے مختلف کرداروں، ڈنک ڈرامے پر تنازع، فیمنزم سے متعلق اپنی سوچ پر بات چیت کی۔

اداکارہ یاسرہ رضوی مضبوط کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں اور کردار کے ساتھ انصاف بھی کرتی ہیں۔

‘ڈنک’ پر ہونے والے تنازع سے متعلق یاسرہ کا کہنا تھا کہ میں نے سوچا کہ سال میں ایک ڈراما کرتی ہوں اس پر بھی ایسا ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہےکہ یہ اچھی چیز ہے کہ ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں اسکینڈل بِکتا ہے۔

‘منٹو’ سے ‘چڑیلز’ اور اب ‘ڈنک’ میں سائرہ اور’دل ناامید تو نہیں’ میں سویرا کے انتہائی پیچیدہ کرداروں سے متعلق سوال پر یاسرہ رضوی نے کہا کہ ‘مجھے آسان اور نارمل رولز کے لیے کوئی کال ہی نہیں کرتا’۔

فیمنسٹ ہونے سے متعلق سوال پر یاسرہ رضوی نے کہا کہ میں فیمنسٹ ہوں، اور اس وقت سے ہوں جب مجھے لفظ ‘فیمنسٹ’ کا مطلب بھی نہیں پتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے چڑیلز نے فیمنسٹ نہیں کیا، اس سے 2 سال پہلے میں نے ‘استانی جی’ خود لکھا تھا اور اس میں اداکاری کی تھی وہ بھی ایک فیمنسٹ پروجیکٹ تھا۔

یاسرہ رضوی نے کہا کہ ویب سیریز چڑیلز سے پہلے کا میرا کوئی پروجیکٹ اٹھالیں، میری شاعری دیکھ لیں، میری زندگی، خود سے 10 سال کم عمر لڑکے سے میری شادی دیکھ لیں، آپ کو کہاں سے لگتا ہے کہ مجھے کسی سے بھی کسی لائسنس کی ضرورت تھی، یہ (فیمنزم ) ایک طرزِ زندگی ہے سوچ کا طریقہ ہے۔

اداکارہ نے مزید کہا کہ ‘مرد اور عورت سب کومعاشرے میں برابری حاصل ہونی چاہیے، شخصی آزادی ہونی چاہیے، کسی کی شہری آزادی، مرضی پامال نہیں ہونی چاہیے’۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرد عورت کیا، ٹرانس جینڈرز، بچہ، بوڑھا، سب کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ زندگی میں ہر حق حاصل کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘میں فیمنسٹ بھی ہوں، مسلمان بھی، پاکستانی بھی، عورت بھی ہوں’، لیکن ہر کوئی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ‘میں عورت نہیں ہوں؟’، لوگ کمنٹ میں سوال کرتے ہیں ‘ کیا آپ مسلمان ہیں؟’ اور میں پچپن سے ایسی چیزوں کا سامنا کررہی ہوں۔

یاسرہ رضوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لوگ اداکار اور کردار میں فرق نہیں کرپاتے حالانکہ یہ بہت مختلف چیزیں ہیں، اداکار کا کام مختلف کرداروں کو ادا کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک فنکار کی زندگی اور اس کے کام کو جانے بغیر ایک ویڈیو کلپ کے اوپر اس کی زندگی اس کے کردار کا فیصلہ کردیا جاتا ہے جوس الگ تھلگ کرنا ہے۔

یاسرہ رضوی نے کہا کہ میں نے ‘ڈنک’ ڈراما کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ مجھے لگا یہ کہانی میں اسکرپٹ آنے سے پہلے سن چکی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ میں نے بہت غور سے پڑھی تھی، ایک آدمی کی موت میرے لیے ثانوی نہیں ہے تو اگر 20 کہانیوں میں کوئی ایسی کہانی ہے تو اسے دکھانا چاہیے۔

یاسرہ رضوی کا مزید کہنا تھا کہانی 5 منٹ کی نہیں ہوتی، 22 سے 23 قسطوں کی ہوتی ہے، اس میں ایک نہیں بلکہ بہت ساری چیزیں زیرِ غور آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہراسانی کے معاملے پر ایک وسیع بحث کسی ڈرامے نے نہیں کی جو ‘ڈنک’ کررہا ہے۔

یاسرہ رضوی کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں شروع کی 6 سے 7 اقساط میں جھوٹا، سچا کیا، صرف الزام کے نتائج کی کہانی دکھائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک آدمی پر الزام لگ گیا، اس کی بیوی اور بچی پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے، کہانی سنانے کا صرف ایک طریقہ تو نہیں ہوتا۔

اداکارہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘کیا ہم ایسی کہانیاں نہیں سنارہے جہاں عورت جھوٹ نہیں بول رہی، اگر اس میں ایک سچا واقعہ بھی شامل ہوجاتا ہے جو اس تحریک کو نقصان بھی پہنچاسکتا ہے تو یہ اس موضوع کو زیادہ جامع نہیں کردیتا؟

یاسرہ رضوی نے کہا کہ ہراسمنٹ میں سروائیور یا وکٹم کا قصور نہیں ہوتا، اسے بولنا چاہیے، یہ بات 20 پلیٹ فارمز پر ہورہی ہے تو اگر کوئی کہانی ایسی آتی ہے جو کہتی ہے کہ ایسا ذمہ داری سے ہونا چاہیے تو یہ ٹھیک ہے۔

انہوں نے کہانی پر تنقید سے متعلق کہا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس ڈرامے کی کہانی سے ہراسانی کے خلاف مہم کو کیسے ختم کیا جارہا ہے۔

ڈرامے سے متعلق یاسرہ رضوی نے کہا کہ یہ انہی پروفیسر کی کہانی ہے جن کی بیوی 8 اکتوبر 2019 کو اپنی 2 بچیوں کو گھر سے لے کر گئی اور انہوں نے 9 اکتوبر کو خودکشی کرلی تھی۔

یاسرہ رضوی نے کہا کہ ذہنی صحت بھی اس حوالے سے اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے ڈرامے سے متعلق یہ بھی کہا کہ ‘ڈنک’ کی اصل بحث میڈیا ٹرائل پر ہے، انٹرنیٹ پر غلط خبر زیادہ تیزی سے گردش ہوتی ہے اور ایسے وقت میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

میڈیا ٹرائل سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں شروع سے ہی ٹرائل پر ہوں، زمانہ میرے بارے میں باتیں کرتا تھا، کچھ لوگوں کے لیے میں کول ہوں، کچھ لوگوں کے لیے میں اوور ایکٹریس ہوں، کچھ شاعروں کے مطابق مجھے شاعری نہیں کرنی چاہیے، یہ سب میری ذاتی زندگی کا حصہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ میرا نام یاسرہ رضوی ہے، یہ میرا واحد تعارف ہے، میں اپنے تجربات، خیالات، اپنی سیکھی ہوئی چیزوں، اپنی سمجھ بوجھ کا مجموعہ ہوں تو میری پولیسنگ نہ کریں۔