آئی ایم ایف پلان کو دوبارہ ٹریک پر لانے کیلئے اصلاحات کے وعدوں پر پیشرفت ضروری

حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو دوبارہ ٹریک پر لانے اور مارکیٹ کو اعتماد دینے کے لیے ٹیکس سسٹم، بجلی اور گیس کے بلوں کے میکانزم میں ایڈجسٹمنٹ، سبسڈیز اور سرکاری اداروں میں انفرااسٹرکچر کی اصلاحات میں پیش رفت ظاہر کرنا پڑے گی۔

وزارت خزانہ کے کچھ سینئر عہدیداران نے صحافیوں سے پسِ پردہ بات کرتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ جہاں کورونا وائرس ایک سنگین چیلنج ہے وہیں اس نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں کی مرکزیت پر سمجھوتہ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ سہولت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے کہا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ مثبت انداز میں منسلک رہنا بہت اہم ہے۔

ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ہمارے آئی ایم ایف کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں جو نہ صرف ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ (آر ایف آئی) کو توسیع دے گا بلکہ دوسروں کو بھی حمایت کا اشارہ دیتا ہے۔

خیال رہے کہ آر ایف آئی دوسرے اور تیسرے سہ ماہی جائزے کے بغیر پروگرام سے منسلک رہنے کی سہولت فراہم کرتا ہے لیکن فیصلوں میں ہچکچاہٹ مثلاْ کراچی کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہ کرنا مالی بوجھ اور پالیسی فیصلوں میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ اقدامات کے بڑے حصے کو آگے بڑھانا ہے اس میں تمام اطراف سے بہتر وضاحت کے لیے ٹیکس سسٹم بہتر بنانا شامل ہے۔

ادھر جنرل سیلز ٹیکس پر عالمی بینک کا اپنا نقطہ نظر ہے اور وزارت خزانہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنا چاہتی ہے تاکہ اس انداز میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور پھر فوری طور پر آگے بڑھا جائے۔

دوسرا مسئلہ بجلی کی قیمتوں میں مؤثر انداز میں اضافہ کرنے کا ہے جسے کووِڈ 19 کی وجہ سے روک دیا گیا تھا اور اس معاملے پر بھی مختلف فریقین کا مختلف نقطہ نظر ہے جسے اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے اکٹھا کرنا ہے کہ کس طرح گردشی قرضوں کے مسئلے سے نمٹا جائے اور سبسڈی میکانزم کو حقیقی بنایا جائے تاکہ سبسڈی ان تک پہنچے جن کے لیے دی گئی ہے۔

اس کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت میکانزم پر غور کیا جارہا ہے جس سے فائدہ اٹھانے والوں کے ماہانہ معاوضے میں اضافہ یا ان کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے ادائیگی کی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ کچھ میکانیکل چیزیں ہیں مثلاً اسٹیٹ بینک کے قانون میں تبدیلی جسے سب سے پہلے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ بروقت سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی اور سب سے اہم یہ کہ آئل اور گیس سیکٹر سے متعلق معاملات کو حل کیا جائے تاکہ ریونیوز اور تیل اور گیس کمپنیوں کے مالی معاملات پورے سیکٹر کو متاثر نہ کریں۔