وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کے لیے بڑے فیصلے کیے اور حکومت سنبھالی تو معیشت کو شدید بحران کا سامنا تھا۔ اسلام آبادمیں بجٹ ویبینار سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں اضافے کے لیے ترجیحی اقدامات کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعمیراتی شعبے سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں کو بھی فعال کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام بہت مشکل تھا، جب مہنگائی 7 فیصد تھی تب ڈسکاؤنٹ ریٹ 13.25 فیصد بڑھا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس سے مسئلہ ہے کیونکہ ڈسکاؤنٹ ریٹ دراصل ضرورت اشیا سے متعلق مہنگائی کو قابو نہیں کرتا’۔ شوکت ترین نے کہا کہ اس مد میں قومی خزانے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور بجلی کے ٹیرف میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا تاکہ گردشی قرضے کم کیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ گروتھ ریٹ تنزلی کا شکار ہوا اور اس کے بعد کووڈ 19 کی وبا شروع ہوئی تو شرح نمو منفی میں داخل ہوگئی۔ شوکت ترین نے کہا کہ اس دوران حکومت نے احساس پروگرام کے تحت ضرورت اور مستحق افراد میں نقد رقم تقیسم کی۔ انہوں نے کہا حکومت نے شعبہ تعمیرات کو اہمیت دی اور اس طرح اس شعبے سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں میں معاشی سرگرمیاں بحال رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح معیشت تھوڑی بحال ہونے لگی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اپنی جگہ رک گیا اور حالیہ برس میں یہ سرپلس میں ہے لیکن اکنامک گروتھ منفی رہی۔ شوکت ترین نے کہا کہ رواں برس بڑی صنعتوں میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہوئیں اور ایکسپورٹ میں بہتر آئی۔ انہوں نے کہا کہ کاٹن کے علاوہ تمام زرعی مصنوعات اور شعبہ ہاؤسنگ کے ساتھ ساتھ سروسز سیکٹر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ میں 41 کھرب 43 ارب روپے اکھٹا کیا جو تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔