وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے منصوبہ بندی کمیشن کے حالیہ اعداد وشمار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال میں 6 فیصد شرح نمو کے حصول کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ جون کے اوائل میں وفاقی بجٹ پیش کیا جائے گا اور امید ہے جون تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈیز میں کمی لا رہے ہیں، گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب سرمایہ بڑھانے کے لیے بھی جامع پروگرام لے کر آ رہے ہیں جس سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں اضافہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مالیات کے شعبے میں بہتری لائی جائے گی جس سے بچت میں اضافہ ہوگا اور لوگ اپنی رقوم بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دیں گے، ہر علاقے کی سیونگز کو اس علاقے میں ہی خرچ کیا جائے گا جس سے مساوی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں 6 فیصد شرح نمو کے حصول کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کمیشن بہترین کام کر رہا ہے اور اس کی پالیسی پر فوکس کیا جائے گا۔
شوکت ترین نے کہا کہ رواں مالی سال21-2020 کے معاشی اعدادوشمار کے مطابق جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 3.94 فیصد بڑھی ہے لیکن اس کو متنازع بنانے کی ناکام کوششیں کی گئیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارہ برائے شماریات منصوبہ بندی کمیشن کے تحت کام کر رہا ہے اور یہ اعدادوشمار وزارت خزانہ کے نہیں بلکہ منصوبہ بندی کمیشن کے ہیں۔
ملک کی معاشی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ تھا اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم تھے اس لیے مجبوری میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا تھا کیونکہ معاشی طور پر مشکل حالات تھے اور ملک میں کورونا وائرس کی وبا شروع ہو گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ 2008 کے مقابلے میں آئی ایم ایف کی شرائط بھی سخت تھیں لیکن ملک میں معاشی استحکام ضروری تھا اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔