کامیاب حج کے انعقاد کے بعد سعودی عرب کی حکومت نے عمرے پر عائد پابندی ہٹانے سے متعلق غور کرنا شروع کردیا۔ کورونا کی وبا کے باعث رواں برس فروری میں سعودی عرب کی حکومت نے بیرون ممالک سے عمرے کے لیے آنے والے افراد کے ملک میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی تھی۔
بعد ازاں حکومت نے مارچ کے آغاز میں تمام بیرونی و اندرونی زائرین پر عمرے کی پابندی کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب کی حکومت نے مارچ میں عمرے پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام مساجد اور دیگر مقدس مقامات کو بھی بند کردیا تھا اور وہاں پر مساجد تقریبا ڈھائی ماہ تک مکمل بند رہی تھیں۔
کورونا کے کیسز میں کمی کے باوجود سعودی حکومت نے حفاظتی اقدامات کے تحت رواں سال فریضہ حج کو بھی بیماری کے باعث محدود رکھا تھا اور کسی بھی دوسرے ملک سے عازمین کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔
اس بار فریضہ حج کے لیے سعودی حکومت نے محض 10 ہزار عازمین کا انتخاب کیا تھا اور تمام عازمین سعودی عرب میں رہائش پذیر تھے۔ اس سال فریضہ حج کی سعادت حاصل کرنے والے 10 ہزار خوش نصیب افراد میں سے 70 فیصد افراد کا تعلق دنیا کے دیگر ممالک سے تھا، تاہم وہ کئی سال سے سعودیہ میں رہائش پذیر تھے۔
اسی طرح 30 فیصد سعودی شہریوں کو حج کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور منتخب کیے گئے تمام 10 ہزار خوش نصیبوں نے زندگی میں پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی تھی۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران حکومت کی جانب سے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے تھے اور تمام عازمین کو فیس ماسک پہننے اور ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرنے کی ہدایات کی گئی تھیں۔
حج کے بعد کسی بھی شخص میں کورونا کی تصدیق نہ ہونے کے بعد اب سعودی حکومت عمرے کی محدود اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ عرب نشریاتی ادارے العربیہ نے اپنی رپورٹ میں سعودی اخبار اوکاز کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکام نے عمرے پر عائد پابندی ہٹانے پر غور کرنا شروع کردیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت حج اور عمرہ نے کامیاب حج کے انعقاد کے بعد اشارہ دیا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں عمرے پر عائد پابندی ہٹالی جائے گی۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کب تک عمرے سے پابندی ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ستمبر کے اختتام تک اس حوالے سے اعلان کردیا جائے گا۔