پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے فحش اور غیراخلاقی مواد پر لائیو اسٹریمنگ ایپلی کیشن بیگو کو بند کردیا جبکہ ویڈیو شیئرنگ سروس ٹک ٹاک کو ‘حتمی وارننگ’ جاری کردی۔
ٹک ٹاک ایک چینی سوشل نیٹ ورکنگ ایپلی کیشن ہے جو صارفین کو ویڈیو کلپس بنانے، گانوں پر لپ سنک کرنے اور چھوٹی ویڈیوز بنانے کی اجازت دیتی ہے۔
تاہم پی ٹی اے کے بیان کے مطابق سوشل میڈیا ایپلی کیشنز بالخصوص ٹک ٹاک اور بیگو پر فحش اور غیراخلاقی مواد اور اس کے نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثر کے حوالے سے معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے پی ٹی اے کو متعدد شکایات موصول ہوئیں۔
بیان کے مطابق پی ٹی اے نے مذکورہ بالا سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیراخلاقی مواد، ملکی قوانین اور اخلاقی حدود کے مطابق اعتدال میں کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے، تاہم ان کمپنیوں کا جواب تسلی بخش نہیں رہا۔
پی ٹی اے کے مطابق ‘لہٰذا پی ای سی اے کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پی ٹی اے نے فوری طور پر بیگو کو بند کرنے اور ٹک ٹاک کو حتمی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ کمپنیاں اپنی سوشل میڈیا ایپلی کیشن کے ذریعے فحاشی اور غیراخلاقی مواد پر قابو پانے کے لیے ایک جامع طریقہ کار وضع کرسکیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے ایک متفرق درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں ویڈیو ایپلی کیشن کو جدید دور کا ایک بہت بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ سوشل میڈیا پر ریٹنگ اور شہرت کے لیے پورنوگرافی پھیلانے کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں پی ٹی اے نے آن لائن گیم پلیئر ان نان بیٹل گراؤنڈز (پب جی) جی عارضی طور پر بند کردیا تھا۔ اس وقت پی ٹی اے کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اتھارٹی کو گیم سے متعلق مختلف شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ یہ گیم اپنا عادی بنادیتی ہے، وقت کا ضیاع اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر نگین منفی اثرات کا باعث بنتی ہے۔
تاہم اس پابندی کے خلاف اب تک مختلف درخواستیں دائر ہوچکی ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس گروپس کا کہنا ہے کہ ویڈیو گیم کو سینسر کرنے کےلیے کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور پی ٹی اے کی جانب سے اس ‘پابندی’ کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی قانونی شق کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
بولو بھی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 37 پی ٹی اے کو ‘غیرقانونی آن لائن مواد’ کو روکنے کا اختیار دیتی ہے، یہاں تک کہ اس شق کی ایک ناپسندیدہ محدود تشریح پی ٹی اے کی جانب سے بیان کردہ وجوہات کی بنا پر کسی ویڈیو گیم کو روکنے کا اختیار نہیں دیتی۔
پی ٹی اے کے اس اقدام کی وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی جانب سے بھی مخالفت سامنے آئی اور انہوں نے کہا کہ پابندی کا کلچر ‘ٹیکنالوجی کی صنعت کو قتل’ کر رہا ہے۔
انہوں نے اتوار کو ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘ویسے میں ہر قسم کی عام پابندیوں کے خلاف ہوں، اس طرح کا رویہ ٹیکنالوجی کی صنعت کو قتل کر رہا ہے، ہم اس طرح کی پابندیاں برداشت نہیں کرسکتے’۔
انہوں نے امید ظاہر کی تھی وزیر آئی ٹی سید امین الحق اس پابندی کا نوٹس لیں گے اور پی ٹی اے کو ہدایت کریں گے کہ اس طرح کی پابندیوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے کیونکہ یہ طویل مدتی بنیادوں پر قومی ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہیں۔