وزیراعظم کا کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان

وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کردیا جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔ کراچی کے خصوصی دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد وزیراعظم نے سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے پھیلاؤ کے بعد فوری طور کمیٹی بنا کر اقدامات کیے اور اسی طرح ٹڈی دل کے معاملے پر بھی فوری ایکشن لیا گیا اور اب بارشوں کی وجہ سے ملک بھر میں جہاں سیلابی صورتحال ہے اس سے اسی طرح نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بارشوں کے باعث کراچی میں پیدا ہونے والے مسائل کے سبب فیصلہ کیا گیا کہ دیگر تمام مسائل کو ایک ساتھ حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جتنے منصوبوں کا اعلان کیا ہے اس میں ہماری کوشش ہے کہ ایک سال کے عرصے میں پہلا مرحلہ جبکہ 3 سال میں دیگر تمام مراحل مکمل کرلیے جائیں۔ وزیراعظم نےعلان کیا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِنشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ میں کراچی کے دورے پر پہلے ہی آجاتا لیکن ہمیں کورونا وائرس کی طرز پر فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے ایک اسٹرکچر تشکیل دینا تھا جو وزیراعلیٰ سندھ کے ماتحت کام کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں جبکہ پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں جب بھی اس طرح کی قدرتی آفت سامنے آتی ہے تو اس میں فوج سب سے آگے ہوتی ہے کیوں وہ سب سے منظم ادارہ ہے اور اس کے پاس سب سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی سی آئی سی سے فیصلے آسان ہوں گے اور رکاوٹیں دور ہوں گی اس سے اصل چیز یعنی عملدرآمد ہوگا کیوں کہ منصوبے بن جاتے ہیں لیکن عملدرآمد ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی سی آئی سی سے عملدرآمد ہوگا اور مانیٹرنگ کمیٹی سے سب دیکھ رہے ہوں گے جس میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور فوج شامل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب کراچی کے عوام کو بڑے مشکل حالات سے گزرنا پڑا لیکن اس سے یہ ہوا کہ جو چیزیں نہیں ہوتی تھیں انہیں حل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کراچی میں مختلف اداروں کا دائرہ اختیار ہے، کہیں کنٹونمنٹس ہیں، کہیں وفاقی حکومت، ریلوے اور کہیں صوبائی حکومت، جس کی وجہ سے عملدرآمد میں مشکل پیش آتی تھی لیکن اب پی سی آئی سی میں تمام اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ اکٹھے ہوجائیں گے۔

وزیراعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ کراچی کے عوام نے جو مشکل وقت گزارا ہے اس سے یہ بہتری سامنے آئے گی کہ جو زیر التوا مسائل تھے وہ حل کردیے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی کے لیے جو پیکج لے کر آئے ہیں وہ تاریخی پیکج ہے جس میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں تعاون کررہی ہیں۔ پیکج کے تحت حل کیے جانے والے مسائل کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہ کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا مسئلہ ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کا ایک حصہ صوبائی جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت لے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا۔ ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب سے بہت لوگ متاثر ہوئے ہیں اور سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی مدد کے لیے بیٹھ کر بات چیت کی جائے گی اسی طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی سیلاب آیا ہوا ہے، اللہ نے اس سال ہمیں مختلف امتحانوں میں ڈالا جس میں کورونا وائرس کا بہت بڑا امتحان تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں بھی تک کورونا کی وجہ سے اس وقت عذاب آیا ہوا ہے ان کی معیشت نیچے گری ہے اور کیسز بڑھتے جارہے ہیں اور ہماری صورتحال یکساں ہونے کی وجہ اس کے مقابلے پاکستان میں اللہ کے کرم سے بہتر صورتحال ہے اور شاید ہی کوئی ملک اس طرح اس سے نکلا ہوں جیسے ہم نکلیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کی صورتحال بہتر ہونے کی سب سے بڑی وجہ سب کے تعاون سے کوششیں کرنا تھا اور اب سیلاب پر بھی ہم نے اسی طرح مشترکہ کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب نے بیٹھ کر معاملات طے کرلیے اور سمجھوتےکیے جاچکے ہیں اس میں ایک مختصر منصوبہ ہےجو ایک سال کا ہے پھر وسطی اور اس کے بعد طویل مدتی منصوبہ ہے جو زیادہ سے زیادہ 3 سال کا ہے۔

وزیر اعظم سے تاجر اور کاروباری طبقے کے وفد نے کراچی میں ملاقات کی۔ کاروباری طبقے کے وفد میں آصف اکرام، نجیب بلگم والا، اعظم فاروق، بشیر علی محمد، فیصل مقبول شیخ، طارق شفیع اور محمد علی تابا شامل تھے۔ میاں انجم نثار، آغا شہاب، نسیم اختر، عبداللہ عابد، سلیمان چاؤلا، نوید شکور، نعمان یعقوب اور شاہین الیاس سروانہ پر مشتمل وفد نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ وفاقی وزرا اسد عمر، شبلی فراز، علی زیدی، فیصل واڈا، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل, مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی ملاقاتوں میں موجود تھے۔

وفود نے وزیر اعظم کو کورونا وبا کے حوالے سے کامیاب حکمت عملی پر مبارکباد دی اور کاروباری طبقے کو مراعات فراہم کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کاروباری طبقہ ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ ان کو تمام سہولیات فراہم کرے، جبکہ کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کے کووڈ وبا سے نمٹنے کے لیے مربوط پالیسی اختیار کی گئی جس میں بیماری سے عوام کا تحفظ اور ساتھ ساتھ معیشت کے پہیے کی روانی کو یقینی بنانا ضروری تھا۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ تعمیرات اور اس سے منسلک شعبوں کے فروغ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد کاروبار اور سرمایہ کاری کے نظام میں آٹومیشن لانا ہے جس کی بدولت کاروباری حضرات کو کم سے کم وقت میں اور شفاف طریقے سے کاروبار کرنا ممکن ہو سکے گا۔

کاروباری طبقے کے نمائندگان نے وزیر اعظم کو برآمدات کے فروغ، ٹیکس اصلاحات کے لیے اہم تجاویز پیش کیں۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان آج ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کے اہم دورے پر پہنچ گئے جہاں گورنر سندھ اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ان کا استقبال کیا ان کے ہمراہ وزیر اطلاعات شبلی فراز اور عامر محمود کیانی بھی کراچی پہنچے۔

کراچی پہنچنے کے فوراً بعد وزیراعظم نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے شہر کا فضائی جائزہ لیا بعدازاں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ دفتر وزیراعظم سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزرا شبلی فراز، اسد عمر، سید علی زیدی، امین الحق، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے علاوہ صوبائی وزرا سید غنی، ناصر شاہ اور سینئیر افسران شریک ہوئے۔ اجلاس میں وزیر اعظم کو کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم نے کہا کے کراچی پاکستان کا اہم ترین شہر اور معاشی حب ہے۔ اس کے مسائل کا حل باہمی اشتراک سے ممکن ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کے مجھے آج خوشی ہے کے تمام شراکت دار بشمول وفاقی حکومت، پاک فوج اور سندھ کی صوبائی حکومت آج کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے موجود ہیں۔

وزیر اعظم نے کراچی میں ہونے والے حالیہ نقصانات کے ازالے کے لیے وفاق کی طرف سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی اور نیوز بریفنگ میں کراچی کے لیے منصوبوں کا اعلان کیا۔ بعدازاں وزیراعظم نے گورنر ہاؤس میں تاجروں کے اعلیٰ سطح کے وفد سے ملاقات کی اور تاجروں کے مسائل سن کر انہیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ یاد رہے کراچی میں بارشوں کے بعد ہونے والی تباہی پر وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ میری حکومت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر فوری طور پر کراچی کے 3 بڑے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہون نے بتایا تھا کہ ان مسائل میں شہر بھر کے نالوں کی مکمل صفائی، آبی گزرگاہوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات سے نمٹنا، کوڑا کرکٹ اور نکاسی آب کے مسائل کا مستقل حل تلاش کرنا اور کراچی کے عوام کو پانی کی فراہمی جیسے بنیادی اور اہم ترین مسئلے کا حل شامل ہے۔

وزیراعظم کی کراچی آمد سے قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کے الیکٹرک حکام کے ساتھ اجلاس کیا جس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ کراچی اس وقت سیاست نہیں سننا چاہتا بلکہ زمینی کام دیکھنا چاہتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ اب یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ سنجیدگی سے اس آپشن کو دیکھا جائے کہ کیا حکومت کو کے الیکٹرک کی ذمہ داری خود لینی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو احکامات جاری کیے ہیں اس میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر کے الیکٹرک کے لائسنس میں ترمیم کی ضرورت ہے تو کی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل اس لیے زیادہ ہیں کہ شہر کا مجموعی اختیار کسی ایک کے پاس نہیں ہے، اس لیے (آج کے دورے میں) مختلف یہ ہے کہ کراچی کے تمام ارباب اختیار وہ مشترکہ طور پر ذمہ داری اٹھاتے ہوئے مل کر کام کرنے کا عزم کررہے ہیں۔

اور اگر تمام شرکا خلوص نیت کے ساتھ باہمی اشتراک کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوگئے تو کئی برسوں سے لاحق مسائل پر قابو پایا جاسکے گا اور کراچی کے عوام کو ان کا حق بھی ملے گا۔ اسد عمر نے مزید کہا کہ کراچی کے بنیادی مسائل حل ہوں گے تو نئی بات ہو گی کیوں کہ شہر کو سرکلر ریلوے، پانی اور تجاوزات کے مسائل حل ہونےکی ضرورت ہے۔ شہباز شریف کے دورے کے بارے میں اسد عمر نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ انہیں کراچی کا خیال تو آیا، وہ کراچی کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بجائے زرداری صاحب کے پاس گئے، وہ تو سیاست کر کے واپس چلے گئے۔

واضح رہے کہ جمعرات کے روز ایک اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ واٹر سپلائی سکیم، سیوریج ٹریٹمنٹ اینڈ ڈسپوزل، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے متعلق اختیارات ایک بااختیار ایڈمنسٹریٹر اور لوکل گورنمنٹ کو تفویض کیے جائیں۔ وزیراعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ بدقسمتی سے کسی نے بھی کراچی کے شہریوں کو درپیش مسائل کا خیال نہیں کیا، حالیہ شدید بارشوں نے نہ صرف انتظامی مسائل کو اجاگر کیا بلکہ متعدد مسائل بھی پیدا کیے۔