چیف جسٹس پاکستان نے نیب ترامیم کے معاملے میں سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ہرایک ذمے دار کا احتساب ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ریفرنس کو کہیں نہ بھیجے تو بس بات ختم۔
وکیل خواجہ حارث نے مؤقف پیش کیا کہ جتنی تیزی سے ریفرنس واپس ہو رہے ہیں کہیں اور نہیں جا رہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب سے پوچھیں گے کہ واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں۔
پراسیکوٹر نیب نے جواب دیا کہ ہرریجن میں کمیٹیاں بنا دی گئیں ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ ممکن ہیں واپس آنے والے ریفرنس دوبارہ دائر ہوں یا کسی اور عدالت جائیں، ہر ایک ذمہ دار کا احتساب ہونا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریفرنسز، ریکارڈ، شواہد، معلومات، دستاویزات سب محفوظ ہونا چاہیے۔ ہر چیز کی فہرست مرتب کرکے محفوظ کی جائے۔
مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا کہ نیب سارا ریکارڈ جمع نہیں کروارہا، نیب صرف احتساب عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں جمع کروا رہا ہے۔ احتساب عدالتوں کے فیصلوں پراعلی عدلیہ کے کیا فیصلے ہوئے نہیں بتایا جا رہا۔ نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان بالآخر ثابت کریں گے کہ قانون تو ہے لیکن سزا نہیں، اخبارات، دیگر حلقوں میں یہ بات چلتی رہی ہے کہ کچھ طبقات پر نیب پراسیکوشن نہیں ہونی چاہیے۔ ان طبقات میں ایک کاروباری لوگ بھی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ 1947 سے آج تک سیاست دانوں کو کرپٹ قراردیا گیا ہے، سپریم کورٹ کی کارروائی اس عمل کو بیلنس کرنے کیلئے ہے۔ لیکن یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔