عزیر بلوچ جے ائی ٹی معمہ ہے یا مشغلہ ۔ سید شعیب زیدی۔ برسبین آسڑیلیا

عزیر بلوچ جے ائی ٹی معمہ ہے یا مشغلہ ۔ سید شعیب زیدی۔ برسبین آسڑیلیا
پاکستان کی سیاسی تاریخ جے آئی ٹی کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی بن جاتی ہے یا ایسا معمہ جس کا آغاز تو سمجھ آتا ہے مگر اسکا اختتام خدا جانے۔دیگر جوائٹ انوسٹیگیشن رپورٹس کی طری عزیر بلوچ کی جے ائی ٹی کی بھی تین سال قبل مکمل ہوگئی تھی مگر کورونا کے ساتھ آخر اس کا ذکر کیوں آیا, شاید حکومتی وفاقی وزیر جنا ب علی ذیدی کو دیر آئے درست والی بات یا تو کسی نے یاد دلادی ہوگی یا خود بھی انسان میں رحمانی حذبہ جاگ سکتا ہے, بحرحال اسکا بھلا یہ تو ہوا کہ اس پر دونوں حکومتیں کا موقف بے چاری عوام کو معلوم ہوگیا, وفاقی حکومت, حکومت میں ہونے کے باوجود چار دستخطوں والی جے ائی ٹی کو بنیاد بنا کر اپنے آپ کو حق بجانب سمجھ رہیں جبکہ دوسری طرف صوبائی حکمران جماعت پاکستان پیلپز پارٹی دو دستخط والی جے ائی ٹی کا آئینہ دکھا کر اپنے آپ کو بری الزمہ دکھارہی ہے
جناب علی زیدی نے جوش خطابت میں آکر جے ائی ٹی کا حوالہ ایون میں تو دے دیا مگر وہ بھول گئے تھے پاکستان کے ایوانوں کے صرف سال ہی بدلتے ہیں لوگ وہی رہتے ہیں, آخر انہیں آہستہ آہستہ نظر آنے لگا کہ جو رنگ انکو ہر ا نظر آرہاتھا وہ درحقیقت حکمران صوبائی جماعت کو نیلا نظر آرہاتھا, اسلئے ان کو مجبوراً یہ بتانا ہی پڑا کہ چا ر دستظ والی جے ائی ٹی دراصل انہیں ملی کیسے, اور شاید وہ اس بات کی سچا ئی سے کم از کم اپنی بات کو ذیادہ بہتر دکھا سکتے ہیں یہاں بھی معاملہ الٹا ہوگیا کہ سب کے منہ میں حیرت سے کھلے رہ گئے عوام منتظر تھی کہ حکمران وفاقی حکومت اب اس جے ائی ٹی کے ذریعے ۸۹۱ افراد کے قتل میں ملوث عزیر بلوچ, اسکے ساتھی اور اسکے ہمدرد ہر شخص کو سزا دلا سکے گی مگر یہ جان کر خوشی کے آنسو حقیقی آنسو بن گئے جب یہ معلوم ہوا کہ چار دستخط والی جے ائی ٹی دراصل ۷۱۰۲ یعنی تقریباً تین سال پہلے ایک گمنام علی زیدی صاحب کے نام بیسٹ آف لک کی دعا کے ساتھ دے گئے
, علی زیدی نے جے ائی ٹی کے پرنٹ کا چونکا رنگ لگنے کے لئیے شاید انتظار تین سال کیا اور اب جب اُس جے ائی ٹی پر مکمل شباب آگیا تو انہوں نے اس کو بنیا د بناکر اس پیپلز پارٹی کو جوکتنے ہی عشرے سے سند ھ کی مقبو ل ترین جماعت کی دعواہ دار رہی اسکو آئینہ دکھانے کی ٹھانی, بحرحال جناب علی زیدی کی کوشش تو اچھی تھی مگر شاید خان صاحب کی نا تجربار ٹیم اپنے کام سے دکھاجاتی ہے کہ ہمارے جوش پر نظر کریں سیاست ہم سیکھ ہی جائیں گے,


پہلی بات یہ کہ جب یہ لفافہ جناب علی زیدی کو ملا, آخر انہوں نے اس کو اس وقت کیوں نہیں پبلک کیا؟ علی زیدی جیسے سینئر پارٹی ورکر اس بات کوکیوں نہیں سمجھے کہ اس میں انکا ٹیسٹ دونوں شکلوں میں تھا, اگر وہ پبلک کرتے تو شاید اس سے بہتر طریقے سے اسکا دفعا کرسکتے مگر تین سال بعد دفعا کرنا انکے اس عمل کو خود بھی ایک مشکوک عمل بنار ہا ہے
دوسری بات, کہ آخر علی زیدی کو کس حیثیت سے جے ائی ٹی دی گئی, یہ ایسے ہی جیسے کوئی آپ کو کہہ دے آٖپ وزیر مملکت ہیں اور آپ سمجھنے لگیں کہ آٖ پ وزیر مملکت بن گئے, نہ آپ قانون و عدلیہ کے کسی ادارے کے ذمہ دار اور کسی نے کوئی کاغذ دیا اور آپ نے اسی کو بنیاد بنایا,
اب اگر پیلز پارئی کی بات کریں تو انکی وہ دلیلیں جو ازتو سے عقل سے عاری ہوتی ہیں کہ عوام عزیر بلوچ کو سارے بڑے عہدے دران کے ساتھ ہر بڑے جلسے میں, ہر بڑ ے مقام پر, حد تو یہ کہ ذولفقار مرزا جیسا بہادر دشمن جو بار بار عزیر بلوچ کی محبت اور ان تمام قتل کے لئیے کھلے عام تبلیغ کررہے ہیں اور اب پیلپز پارٹی نے کہہ دیا کہ ہماری جے ائی ٹی اصل میں واحد جے ائی ٹی ہے جو صحیح ہے, اگراس بات کو مان بھی لیا جائے تو معاملہ پھر بھی سلحھتا نظر نہیں آتا, پہلے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا اب تو پوری دال ہی کالی لگ رہی ہے, ایم کیوایم حقیقی بھی شامل نظر آرہی ہے, مرنے والوں میں کراچی کے ہر طبقے کے لوگ شامل تھے, ایم کیو ایم پاکستان سمیت تو اب سارے ہی شامل ہو گئے متاثرین میں, مگر وزیراعلی مراد علی شاہ سمیت ہر سینئر عہدہ دار اس بات کا حامی کہ بہت غلط ہو ا بہت برا انسان تھا بیچار ہ عزیر بلوچ مگر ہمار ہ نہیں ایک اور انسا ن جب تک قابل استمعا ل تھا اپنا تھا, ایک پیغام اب بھی موجود ہے ان تمام لوگوں کے لئیے جو ابھی بھی اسی سسٹم کا حصہ ہے
آخر میں یو ں لگ رہا ہے کہ دونوں جے ائی ٹی کو مخالف پارٹی رد کررہی ہے, کوئی علی زیدی کو پاگل خانے جانے کا مشورہ دے رہا تو کوئی سعید غنی کو خائن, غرض اب یہ ہو ا کہ وہ جے ائی ٹی رپورٹ جس سے یقینا سسٹم کچھ نہ کچھ بہتر ہوتا وہ کچرے کے ڈبے کا حصہ بنتی نظر آرہی ہے پیلز پارٹی کی جے ائی ٹی پر پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ یہ جے ائی ٹی دو حصوں پر مشتمل ہے دوسرا حصہ پارٹی کے متعلق ہے اس لئیے علیحدہ رکھا جارہا ہے اگر وہ صرف اپنی جے ائی ٹی کو ہی صحیح مان لیں تب بھی دوسری جے ائی ٹی اسکا حصہ نظر آتی ہے, بہتر ہے مکمل انکاری ہوجائیں,
دوسری جانب جناب علی زیدی اگر دوسری جے ائی ٹی پر ان اداروں سے رابطہ کرتے ہیں جن کے جے ائی ٹی پر دستخط ہیں تو بہتر ہے کہ یہ کام پہلے کرلیتے اب شاید بات نہ بنے تو سارہ کھیل ختم, یعنی یہ جے ائی ٹی کاغذ کی ردی بن گئی, چلوجے ائی ٹی کا کھیل دوبارہ شروع کریں دوبارہ انوسٹیگیش اور دوبارہ ساری کاروائی, عوام بیچاری منہ میں انگلی لئے ابھی تک یہ سوچ رہی ہوگی, کہ جے ائی ٹی معمہ ہے یا مشغلہ

Comments (1)
Add Comment
  • Shahanshah

    Nice words MR shoaib is a good writer
    I know him very well.