عدالت کا ساجد گوندل کی بازیابی میں ناکامی پر سیکریٹری داخلہ پر اظہار برہمی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ ہفتے لاپتا ہونے والے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کو بازیاب کرانے میں ناکامی پر سیکریٹری داخلہ، پولیس اور دارالحکومت کی انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت میں جبری گمشدیوں کی بڑھتی تعداد پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی پالیسی وضع کرنے کے لیے اس معاملے کو وزیراعظم کے سامنے اٹھائیں۔

مزید برآں عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ فرد سے متعلق ایک الگ کیس میں وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ساجد گوندل سے متعلق کیس کی گزشتہ سماعت پر حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ جمعرات کی رات سے گمشدہ ہونے والے ایس ای سی پی کے افسر کو 7 اگست (پیر کو) پیش کریں۔

اسی معاملے پر آج وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایس ای سی پی کے گمشدہ افسر ساجد گوندل کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران گمشدہ افسر کے اہل خانہ، سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اور ڈپٹی کمشنر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ چیف کمشنر کہاں ہیں؟ جس پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے جواب دیا کہ وہ این ڈی یو کی ٹریننگ میں تھے، آ رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یونیفارم کا احترام ہے، کیا یہ عام کیس ہے؟ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، دارالحکومت صرف 1400 اسکوائر میل پر مشتمل ہے، اس چھوٹے علاقے کے لیے آئی جی اور چیف کمشنر موجود ہیں جبکہ سب سے بڑی آئینی عدالت بھی اسلام آباد میں ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ساجد گوندل کو عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر وہاں موجود حکام سے کہا کہ کوئی ایک مثال بتائیں جس میں لاپتا شہری کو بازیاب کرایا گیا ہو، آپ شہری کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہوئے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘کسی کو تو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے’، جس پر سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ ساجد گوندل کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں اس نوعیت کی کتنی درخواستیں زیر سماعت ہیں، اگر وفاقی حکومت کے کسی وزیر کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو تو آپ کا رویہ کیا ہوتا؟ کیا آپ نے انہیں بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں کیا ہو رہا ہے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ نے اس سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ ہی نہیں کیا ہوگا، وزیراعظم کو جیسے ہی اطلاع ہوئی، ریاست کا ردعمل مختلف ہوگا۔

عدالتی ریمارکس و استفسار پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ آج صبح اجلاس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا ہے، اعلیٰ سطح پر تفتیش کی جارہی ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت تفتیش میں مداخلت نہیں کرے گی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی وزارت اور ہر محکمہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شامل ہے، آپ کی وزارت کے لوگ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے کیسز میں فیصلے کرتے ہیں، جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، یہ صورتحال تشویشناک ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ لاپتا افراد کے کمیشن نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے، کیا یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ابھی اس سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

سیکریٹری کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم کو چیئرمین کمیشن سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا ان کے پاس کوئی ذاتی معلومات ہیں؟ اگر پاکستان کے دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟

انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسران کی کوئی تربیت نہیں، اسلام آباد میں پروسیکیوشن برانچ ہی نہیں، ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ اس صورتحال میں آئینی عدالت کیا کرے؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ریاستی اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ایف آئی آر کاٹ کر تفتیش شروع کردی گئی ہے، ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی ناکامی تسلیم کریں، وفاقی دارالحکومت میں ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے، ایسا ایک رات میں نہیں ہوا، مس گورننس نے اس صورتحال تک پہنچایا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تین دنوں سے صرف اجلاس ہورہے ہیں، ایس ای سی پی کے عہدیدار کو تلاش نہیں کیا جاسکا، آپ کی کوششیں نظر نہیں آرہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ آئینی عدالت کے سامنے ریاست کے طور پر کھڑے ہیں اور ریاست کمزور نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اصل کرپشن ہے، آپ نے وزیراعظم کو بتایا کہ آپ کے ماتحت ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہیں، آپ وزیراعظم کو آگاہ کریں کہ اداروں کا ریئل اسٹیٹ کاروبار کرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ یہ معاملہ آپ وفاقی کابینہ کے نوٹس میں بھی لائیں، جس پر سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو مطلع اور آئندہ کابینہ اجلاس میں یہ معاملہ رکھا جائے گا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی دارالحکومت میں کتنے منتخب نمائندے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ تین افراد اس علاقے سے عوام کے نمائندے منتخب ہوئے۔

عدالت میں طویل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ درخواست گزار کی عمر کیا ہے؟ کیا کسی نے ان کے گھر کا دورہ کیا؟ جس پر پولیس نے کہا کہ ایس پی انویسٹی گیشن اور ڈی ایس پی نے ان کے گھر کا دورہ کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی وزیر کا بیٹا اغوا ہوتا تو کیا صرف ڈی ایس پی ان کے گھر جاتا؟

چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کیا وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران کاروبار میں ملوث ہو سکتے ہیں؟ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ براہ راست ملوث نہیں ہو سکتے، اسی دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ اس طرح تو سپریم کورٹ ایمپلائیز کی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رول آف لا نہیں ہوگا تو کرپشن ہو گی، صرف نیب کرپشن نہیں روک سکتا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی بھی ضروری ہے، اگر ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم یہاں کیا رہے ہیں، پھر یہ آئینی عدالت بند کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس ای سی پی عہدیدار کی بوڑھی ماں اور چھوٹے بچے یہاں موجود ہیں، یہ بچے کسی کے بھی ہو سکتے ہیں، اس ماں کو کیا جواب دیں؟ کوشش کریں کہ کسی اور ماں کو اس طرح کے معاملے میں عدالت نہ آنا پڑے۔

چیف جسٹس نے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کتابی باتیں نہ بتائیں اور وزیراعظم کے نوٹس میں یہ بات لائیں، عدالت کو وزیراعظم پر مکمل اعتماد اور یقین ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ آپ کو آئندہ سماعت تک موقع دے رہے ہیں، آئندہ کسی وضاحت کے ساتھ نہ آئیں۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت کو 17 ستمبر تک ملتوی کردیا گیا۔

خیال رہے کہ جمعرات (3 ستمبر) کی رات کو ساجد گوندل گمشدہ ہوگئے تھے اور ان کی کار اگلی صبح پارک روڈ سے ملی تھی۔

عدالت میں ان کی والدہ کی دائر کردہ درخواست کے مطابق شام ساڑھے 7بجے ساجد گوندل شہزاد ٹاؤن اسلام آباد میں اپنے گھر سے سرکاری گاڑی میں باہر گئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کی کار اسلام آباد میں قومی زراعت تحقیقی مرکز کے قریب مین پارک روڈ پر کھڑی ہوئی ملی۔

ساجد گوندل کی اہلیہ نے واقعے کی اطلاع شہزاد ٹاؤن تھانے میں درج کروائی اور اس شبہ کا اظہار کیا کہ ان کے شوہر کو ‘نامعولم افراد اغوا کرکے’ لے گئے۔

انہوں نے پولیس پر زور دیا تھا کہ وہ ان کے شوہر کی واپسی کو یقینی بنائیں، ساتھ ہی بتایا تھا کہ ان کے خاندان کی ‘کسی سے دشمنی نہیں’۔

اس واقعے کے اگلے روز ساجد گوندل کی والدہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔