تاشقند میں وسطی اور جنوبی ایشیا رابطہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے تو وزیراعظم عمران خان نے انہیں فوری جواب دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغان صورتحال کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا بہت ناانصافی ہے، جب پاکستان پر الزامات لگائے جاتے ہیں تو مجھے اس پر بہت مایوسی ہوتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے افغان امن عمل کے لیے سنجید ہ کوششیں کیں، افغانستان میں بدامنی کے لیے پاکستان پر الزامات لگانا غیر منصفانہ ہے، گزشتہ 15 سال میں پاکستان نے70 ہزارافراد کی قربانی دی، افغانستان میں امن سب ہمسایہ ممالک کے مفاد میں ہے، افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان پل ہے، افغانستان میں امن خطے میں امن کیلیے ضروری ہے، خدشہ ہے افغانستان میں بدامنی سے مہاجرین کی ایک نئی لہر آئے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب لاکھوں امریکی و نیٹو فوجی افغانستان میں موجود تھے اس وقت طالبان سے مذاکرات کرنے چاہیے تھے، اب جب انخلا کی تاریخ دے دی گئی اور چند ہزار امریکی فوجی رہ گئے ہیں تو اب طالبان کیوں سمجھوتہ کریں گے، وہ ہماری بات کیوں سنیں گے جب انہیں فتح دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ازبکستان، تاجکستان اور پاکستان کے لیے مل کر بیٹھنے اور افغانستان کے پرامن حل اور سیاسی تصفیے میں مدد کا وقت ہے۔ یہ ہمارے مفاد میں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اوربھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے، مسئلہ کشمیر کے حل سے پورے خطے میں رابطے کھل جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوادر پورٹ پر معاشی سرگرمیاں مارچ 2019 سے شروع ہوئیں، یہ منصوبہ بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، اور پورا خطہ اس سے مستفید ہوگا، جس کے لئے خطے میں امن و سلامتی سب سے اہم ہے۔
علاوہ ازیں سنٹرل اینڈ ساؤتھ ایشیا کانفرنس کے بعد وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی وفود کے ہمراہ ملاقات اور مذاکرات ہوئے۔ پاکستان وفد کی قیادت وزیراعظم عمران خان اور افغان وفد کی قیادت صدر اشرف غنی نے کی۔ ملاقات میں افغان امن عمل اور خطے کی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔