اپوزیشن کے اتحاد کی قیمت پر حکومت کو ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز کی منظوری میں مکمل تعاون فراہم کرنئے کے بعد مرکزی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد مستقبل قریب میں کثیر الجماعتی کانفرنس کے انعقاد کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوششیں کرنا ہے۔
ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ میڈیا سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ’تمام پارٹیز نے متحد ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ساتھ آگے بڑھیں گے، رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور (اپوزیشن کی) آل پارٹیز کانفرنس بھی ہوگی‘۔
کثیر الجماتی کانفرنس کی میزبانی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ’شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں‘ یعنی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرح جے یو آئی ایف بھی چاہتی ہے کہ پی ایم ایل این اپوزیشن پارٹیز کے اجتماع کی میزبانی کرے۔ تا کہ ملک میں حکومت مخالف مہم شروع کرنے کی حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔
ملاقات میں دونوں جماعتوں کے سینئر رہنماؤں بشمول مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق جبکہ جے یو آئی ایف کے مولانا عبدالغفور حیدری بھی موجود تھے اور دونوں اطراف کے ملابق ملاقات اچھے ماحول میں ہوئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمان کے باہر تمام جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوششیں کی جائیں گی اور ’ٹھوس مشاورت کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا‘۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے وفد کو بتایا ہے کہ ہم چھوٹی جماعتوں کا اجلاس کرچکے ہیں جس میں قوم پرست جماعتیں بھی شریک ہوئیں جو ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز کی منظوری میں کردار ادا کرنے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کردار سے ناخوش ہیں اس لیے وہ ان سے مشاورت کے بعد دوباہ بڑی اپوزیشن جماعتوں کے پاس آئیں گے۔
سربراہ جے یو آئی (ایف) کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی (این پی) کے صدر حاصل بزنجو کی وفات کے سبب انہیں چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس مؤخر کرنا پڑا۔
انہوں نے شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں رابطہ کرنے کے اعلان کو سراہا اور کہا کہ کثیر الجماعتی کانفرنس کے لیے پہلے وہ چھوٹی جماعتوں سے مشاورت کریں گے اس کے بعد دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ان کا ’مشترکہ حکمت عملی‘ کے تحت آگے بڑھنے کا معاہدہ ہوا ہے کیوں کہ اپوزیشن جماعتوں میں تقسیم اور عدم اتفاق پاکستان اور اس کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس موقع پر سوال پوچھا گیا کہ بڑی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ماضی میں چھوٹی اپوزیشن پارٹیز کو ’دھوکا‘ دینے کے کردار کے باوجود کیا جے یو آئی ایف ان پر یقین کرنے کو تیار ہے؟ جس کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے صرف اتنا کہا کہ شہباز شریف کی ان کی رہائش گاہ پر آمد نے اس سلسلے میں ان کے خاصے خدشات دور کردیے ہیں۔
اس ضمن میں جب پی پی پی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حالانکہ جے یو آئی (ف) سربراہ نے باضابطہ طور پر اپنے تحفظات یا شکایات پارٹی قیادت کو نہیں پہنچائیں تاہم انہیں پارلیمان میں کی گئی تقاریر اور میڈیا سے اس کا علم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پی پی پی توقع رکھتی ہے کہ شہباز شریف جلد اپوزیشن جماعتوں کی کثیر الجماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں پیپلز پارٹی شرکت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔