شوگر اسکینڈل میں ملوث شوگر ملز مالکان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے عیدالاضحیٰ کے بعد انہیں نوٹسز ارسال کیے جائیں گے۔ جن افراد کو نوٹسز بھیجے جائیں گے، ان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری شامل ہیں۔
شوگر اسکینڈل کی تحقیقات میں حالیہ پیشرفت سے آگاہ ذرائع کے مطابق حکومت کی ہدایت کے مطابق تمام متعلقہ محکمے شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں مل مالکان کو نوٹسز ارسال کیے جائیں گے جن میں جہانگیر ترین بھی شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جہانگیر ترین جواب نہیں دیتے اور تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے ملک واپس نہیں آتے تو انہیں واپس آنے کے لیے موجود دیگر اختیارات استعمال کیے جائیں گے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ نوٹس صرف صرف جہانگیر ترین ہی کو ارسال نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے خاندان کے وہ افراد جو کاروبار میں شراکت دار ہیں انہیں بھی نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔ شوگر ملز مالکان کے خلاف جو محکمے کارروائی کریں گے ان میں قومی احتساب بیورو(نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی)، کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان(سی سی پی) اور انسداد بدعنوانی کے تمام صوبائی محکمات شامل ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے شوگر ملز مالکان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور آئندہ 90 روز میں رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ ذرائع نے کہا کہ متعلقہ محکموں نے شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے ٹیمیں بھی تشکیل دینا شروع کردی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے اس مقصد کے لیے 11 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم تحقیقات کرے گی کہ کس طرح چینی افغانستان اسمگل کی گئی تھی اور مل مالکان نے کیسے مبینہ منی لانڈرنگ کی۔
وزیر اعظم عمران خان کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے اسٹیٹ بینک، سی سی پی کے علاوہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھے تھے اور ان سے کہا تھا کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف فرانزک آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے۔
خطوط کے ساتھ شوگر انکوائری کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں منسلک کی گئی تھی، شوگر ملز مالکان پر ذمہ داری عائد کرنے اور قانون کے خلاف سبسڈیز کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے نیب کو بھی خط ارسال کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق نیب، شوکر اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری عہدیداران بشمول سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے نمٹے گی جن پر مل مالکان کو 20 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا الزام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی نے بین الاقوامی سطح پر چینی کی قیمتوں میں کمی کے کئی ماہ بعد برآمد کی اجازت دی تھی اور مل مالکان کو سبسڈی تھی۔ ذرائع نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف گزشتہ برس مل مالکان کو 2 ارب روپے کی سبسڈی دینے کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
ایف بی آر کو تمام شوگر ملز کا آڈٹ کرکے بے نامی اکاؤنٹس، مشکوک ٹرانزیکشنز اور ٹیکس چھوٹ سے متعلق تحقیقات کی ہدایت دی گئی تھی۔
23 جون کو وفاقی کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر ایک ایکشن پلان مرتب دیا تھا۔ علاوہ ازیں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے چیف سیکریٹریز کو بھی خطوط ارسال کیے جاچکے ہیں جس میں ان سے کارروائی شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔
دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک کو شوگر ملز کو دیے گئے قرضوں کی تحقیقات کرنے اور جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی جبکہ ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کو کارپوریٹ فراڈ اور شوگر ملز کے برآمد کے معاملے کی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
خطوط میں کہا گیا کہ متعلقہ محکمے حکومت سے بھاری سبسڈی ملنے کے باوجود گنے کے کاشتکاروں کو سود اور مختصر ادائیگی پر دیے گئے قرضوں کی تحقیقات کریں گے جبکہ صوبائی اینٹی کرپشن محکمات شوگر ملز کے خلاف تحقیقات کا آغاز کریں گے۔