صدر مملکت نے کہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔
تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ سب کو چوتھا پارلیمانی سال مکمل ہونے اور پانچویں پارلیمانی سال کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، میں آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر بھی اس معزز ایوان کے اراکین اور پوری قوم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں پر آپ کے سامنے قائد اعظم کا قول پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا کہ خدا نے ہمیں ایک عظیم موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی ریاست کے معمار کے طور پر اپنی قابلیت کو ثابت کریں تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے ساتھ انصاف نہ کر سکے ۔
ڈاکٹر عارف علوی نے یہ بھی کہا کہ میں اس ذمہ داری کا بھی احساس دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی کا حصول کتنا مشکل ہے،جمہوریت کو پروان چڑھتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک مزید مضبوط ہو، میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں درپیش مسائل سے جلد نجات عطا فرمائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے میں پاکستان کو اس وقت درپیش سب سے اہم بحران یعنی کہ سیلاب پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں اس سال مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے ایک “سیلاب ِ عظیم ” کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہمیں شدید نقصان برداشت کرنا پڑا ۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے اب تک کے اندازے کے مطابق تقریباً 15 سو سے زائد افراد جانبحق ہوئے اور گھروں ، عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیموں کو بھی نقصان پہنچا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بچوں کو پاکستان میں غذا نہیں مل رہی دوسری طرف کچھ لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔ احساس پروگرام اور بی آئی ایس پی نے اچھا کام کیا ہے جبکہ کورونا میں علمائے کرام نے بھی حفاظتی انتظامات کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ چوبیس فیصد پاکستانی ذہنی تناؤ کا شکار ہیں، پاکستان میں ذہنی تناؤ کی کئی وجوہات ہیں جبکہ خورااک کی بڑھتی ہوئی کمی اور مہنگائی تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زرعی شعبے سے پاکستان کی ایک بڑی آبادی کا روزگار وابستہ ہے ، زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، زراعت میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان اپنی کمزور معیشت طاقتور بناسکتا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ دنیا نے زرعی شعبے اور فصلوں اور زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے اعتبار سے بے پناہ ترقی کی ہے، میں یہاں پر ایک ایسے ملک کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں جو کہ رقبے کے اعتبار سے پاکستان سے تقریباً 19 گنا چھوٹا ہے مگر اس کے باوجود نیدرلینڈز دنیا کا دوسرا بڑا خوراک کا برآمدی ملک ہے اور اس کے پیچھے زرعی نظام کو بہتر بنیادوں پر استوار کرنا اور اسکی بہترین نظم و نسق ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں انتہائی یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ جتنی زمین اور پانی پاکستان کے پاس موجود ہے اگر ہم زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر ترقی دیں تو نہ صرف ہم اپنی زرعی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ انہیں برآمد بھی کر سکتے ہیں اس کیلئے ہمیں زرعی شعبے کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی دینا ہوگا۔
ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مرض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اس کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے۔میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ آپ اس بیماری کی علامات جانیں، چھاتی کے کینسر جیسی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، چھاتی کے کینسر کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صحت کی انشورنس ، صحت کارڈز کا اجراء قابل تعریف قدم ہے جبکہ غریب آدمی کے لئے صحت کارڈ بہت بڑی سہولت ہے، ہمیں لوگوں کو ٹیلی ہیلتھ کی خدمات کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ لوگ گھر بیٹھے بیٹھے بھی ڈاکٹر سے مفت مشورہ حاصل کر سکیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ میں اس امر کی بھی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب اس وقت تک ادھورا رہے گا جب تک ہم اپنی تقریباً 50 فیصد خواتین آبادی کو معیشت اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نبی اکرم ص نے جس طرح خواتین کی اہمیت معاشرے کو بتائی شائد ہی کوئی بتاسکے، قائد اعظم نے خواتین کے بغیر ملکی ترقی کو ناقابل عمل قرار دیا، میرا خیال ہے کہ خواتین کو گھروں تک محدود رکھنے کا تصور مذہب کے بجائے ہماری سماجی اور ثقافتی روایات میں سے نکلا ہے ۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کورونا سے بمشکل نکلا ہے اب ہمیں معیشت کو ترقی دینا ہے جبکہ پاکستان یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی معیشت کو نقصان پہنچا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ وزیر اعظم اور پچھلی حکومت کے وزیر اعظم بھی اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہمیں معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اچھی بات ہے، آئی ایم ایف کی وجہ سے باقی ڈونرز بھی آگے بڑھے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت ترقی نہیں کرسکتی، سیاسی جماعتیں سیاسی استحکام کے لئے کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ڈنڈے کے زور پر بند کرنا کوئی حل نہیں ہوگا، سوشل میڈیا کو بطور ایک ٹیکنالوجی سمجھیں، لوگوں کو اس کا درست استعمال بتانا ہوگا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور دیرینہ دوست ہے ۔ 50 اور 60 کی دہائی سے شروع ہونے والے اس تعلق کو ہم مزید جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاک -امریکہ تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں، ہم برابری اور عزت کے ساتھ امریکہ کے ساتھ تعلق چاہتے ہیں اور حکومت امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے بہتر کام کررہی ہے۔
صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ چین سے ہماری دوستی سب پر عیاں ہیں جبکہ سعودی عرب ہمارا بھائی ہے ہم اس کی حفاظت کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں۔ افغانستان میں بھی ہم ہر صورت امن چاہتے ہیں، طالبان کی حکومت نے کہا تھا کہ ان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اس پر عمل ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اسلافوبیا پھیلا رہا ہے، پاکستان اور مسلم ممالک کی کوششوں سے ااقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور ہوئی ہے۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے ہیں اور ہر قیمت پر ساتھ رہیں گے۔
ڈاکٹر عارف علوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرپشن پاکستان میں بہت زیادہ ہے سب مانتے ہیں مگر روکنے کی ٹھوس کوششیں نہیں کی جاتیں، نیب کو سیاسی طورپر استعمال نہیں کرنا چاہیے اسے کرپشن کے خاتمے کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی تناؤ ختم ہونا چاہیے یہ کام سیاسی قائدین کو ہی کرنا ہوگا جبکہ جن جن حکومتوں نے ایف اے ٹی ایف پر بڑی محنت کی ہے ہم جلد اس سے نکل جائیں گے۔
صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں شفاف الیکشن کا مطالبہ ہمیشہ رہتا ہے، شفاف الیکشن کے لئے ای وی ایم پر غور و فکر کرنا چاہیے ورنہ ہر پارٹی جو ہارے گی وہ دھاندلی کا الزام لگائے گی۔
ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہوگا، سپریم کورٹ بھی بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیتی ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا مزید کہنا تھا کہ پولرائزیشن کے خاتمے کے لئے ضد ختم کریں اور سیاسی قیادت آپس میں بات کرے، یہ الیکشن کا سال ہے چند ماہ آگے پیچھے کرکے الیکشن کی تاریخ پر اتفاق کرلیں۔
ایوان میں صدرمملکت عارف علوی کے خطاب کے دوران وزراء کی نشستیں مکمل خالی رہی جبکہ صرف پی ٹی آئی کے منحرف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینٹرز اور جی ڈی اے کے ارکان ایوان میں موجود تھے۔