وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں بیماری کا پھیلاؤ کم ہوا لیکن اس پر کسی تساہل یا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ قوم کے لیے خصوصی پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ ملک میں اگر بیماری کا پھیلاؤ کم ہوا ہے تو اسے مزید کم کیا جاسکے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے تجربات ہمارے سامنے ہیں جس میں ایک مرتبہ کورونا وائرس کے کیسز میں کمی کے بعد وبا نے دوبارہ سر اٹھایا اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ کیسز اور اموات سامنے آئیں چنانچہ اس سلسلے میں کوئی بھی قبل از وقت فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عید اور محرم کی صورت میں بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عوام مل کر پوری ذمہ داری کے ساتھ ان چیلنجز سے نمٹیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا بہت سے افراد یہ پوچھتے ہیں کہ کس وجہ سے پاکستان میں اتنی تیزی سے کمی آنی شروع ہوگئی اس کی وجہ یہ ہے وزیراعظم کی قیادت میں کیے گئے بروقت اقدامات کے نتیجے میں عوام نے نسبتاً احتیاط برتی اور ان کے رویوں میں بھی بڑا فرق آیا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کے رویوں میں فرق آنے کی وجہ عوام کے ساتھ مستقبل رابطے میں رہنا تھا اور گزشتہ 6 ماہ کے عرصے میں تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل کمیونیکیشن کی گئی جس کے نتیجے میں لوگوں کا رویہ تبدیل ہوا جو بیماری کا پھیلاؤ روکنے کی ضمانت بنا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت، وزارت صحت، وزارت اطلاعات، آئی ایس پی آر، ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اور دیگر اداروں نے مل کر بہت بڑا کام کیا جن کی کاوشوں کا مجموعی اثر ہے کہ پاکستان میں کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہونی شروع ہوئی۔
معاون خصوصی نے کہا کہ ہمیں لوگوں کو اس بات کا ادراک کروانے کی ضرورت ہے کہ یہ عام عید نہیں ہے اس موقع پر گہما گہمی ہوتی ہے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر 5 چیزوں کا خاص خیال رکھا جائے اس میں ایک ماسکس پہنیں، سماجی فاصلہ رکھیں، بزرگوں کا خیال رکھیں اور مویشی منڈیوں میں غیر ضروری طور پر نہ جائیں اور جانے کی صورت میں تمام احتیاطی تدابیر اپنائیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ آنے والی عید کے حوالے سے بھی کمیونیکیشن کے حوالے بہت زیادہ کمپین چلائی گئی جس کا مقصد لوگوں کو اس بات کا ادراک کروانا ہے کہ یہ عام عید نہیں مختلف عید ہے اس موقع پر تمام ایس او پیز پر عمل کرنا ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ گہما گہمی کے باوجود لوگوں سے رابطوں سے بچیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں بھی ایسی صورتحال نظر آئے کہ لوگوں کا ہجوم ہو مثلاً مویشی منڈیاں، قربانی، نماز وغیرہ کے وقت ایس او پیز پر عمل کیا جائے۔
معاون خصوصی برائے صحت نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کو 5 چیزوں پر لازمی عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی:
- گھر سے باہر نکلتے ہوئے ماسک پہنیں۔
- دوسروں کے ساتھ کم از کم 2 میٹر کا فاصلہ برقرار رکھیں۔
- اپنی صفائی سھترائی کا خیال رکھیں بالخصوص ہاتھ بار بار دھوئیں۔
- بزرگوں کا خیال رکھیں کیوں کہ انہیں اس وائرس سے زیادہ خطرہ ہے۔
- پہلے سے بیمار افراد کا بھی خاص خیال رکھیں، بیماروں، بزرگوں اور بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکا جائے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ جہاں پاکستان میں بیماری پر 80 فیصد قابو پا لیا ہے تو عید کے موقع پر بھی اگر حکومت اور عوام اپنی ذمہ داری ادا کریں گے تو یہ عید اچھے طریقے سے گزار سکیں گے اور جس طرح عید الفطر کے بعد کیسز میں ایک دم اضافہ ہوا وہ صورتحال دوبارہ پیش نہیں آئے گی۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے مزید کہا کہ پاکستان ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے اور ذرا سی بے احتیاطی کیسز اور اموات میں اضافے کا مؤجب بن سکتی ہے۔