جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار میں لانے والوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ مارچ میں حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی، مارچ تو گزر گیا اب ملین مارچ ہی رہ گیا ہے۔
پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی جنرل سیکریٹری افتخار حسین کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف ان کا ساتھ نہ دینے کے حوالے سے کہا کہ ‘ہم مایوسی کا شکار نہیں ہیں اور نہ مایوسی قریب آنے دی ہے، تحریکیں اگر تمام حزب اختلاف کے اشتراک سے چلیں تو وہ کامیاب رہتی ہیں، اے پیسی بلانے یا نئی تحریک کی طرف جانے میں کوئی اختلاف نہیں لیکن کچھ چیزیں ہماری نظر میں اس نظریے کے ساتھ متصادم ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘ایک طرف ہم اس حکومت کو ناجائز، جعلی ووٹ اور جعلی مینڈیٹ کی حامل کہیں اور نئے انتخابات کا مطالبہ بھی کریں، پھر جب بھی اس حکومت کو کسی مسئلے پر ووٹ کی ضرورت پڑتی ہیں اور بڑی اپوزیشن جماعتیں انہیں ووٹ دیتی ہیں تو ہماری نظر میں یہ بات صورتحال سے متصادم ہوجاتی ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے اب بھی یہی تقاضا ہے کہ اگر یہ روش ترک کردی جائے اور ہم بری وضاحت و یکسوئی کے ساتھ حزب اختلاف کی تحریک چلائیں تب ہی قوم کا اعتماد حاصل کر سکیں گے، اگر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہو تو عام آدمی کا وہ اعتماد حاصل نہیں کر سکتے جو ہونا چاہیے۔’
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اس حوالے سے ہمارے رابطے اب بھی جاری ہیں اور یہ ہم یہ ضرور چاہیں گے کہ اس تذبذب سے نکلیں، یکسوئی کی طرف جائیں اور واضح موقف قوم کے سامنے رکھیں تاکہ عام آدمی حزب اختلاف کی تحریک پر بھرپور اعتماد کرے۔’
حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘جو لوگ اس حکومت کو اقتدار میں لائے انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مارچ میں حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی، مارچ تو گزر گیا اب ملین مارچ ہی رہ گیا ہے۔’
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق پارلیمنٹ میں حالیہ قانون سازی سے متعلق انہوں نے کہا کہ ‘ایک طرف ہم یوم آزادی منا رہے ہیں اور دوسری طرف ایسی قانون سازی کررہے ہیں جو آزادی کی نفی ہے، آج اگر اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد آئے جو پاکستان کے قانون کے خلاف ہو تو ہماری آزادی تو ختم ہوگئی۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ان تمام چیزوں سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی قوتیں انہیں کسی نہ کسی دباؤ کے تحت قوم کے ووٹ کو چوری کرکے لے کر آئیں اور ہم پر مسلط کیا اور اس ایجنڈے کے تحت لائے ہیں تو آج ہم ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے تحت قانون سازی کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔’
سربراہ جے یو آئی (ایف) نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کے حوالے سے کہا کہ ‘ یہ معاہدہ فلسطینیوں کی 70 سالہ جدوجہد آزادی کی نفی ہے، دنیا میں کشمیر اور فلسطین کی جدوجہد آزادی کی قدر و قیمت نہیں، کمزور مسلم ممالک کی گردن مروڑ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، یو اے ای کا اقدام درست نہیں اس کی اصل ملکیت امریکا کے پاس ہے، یہ لوگ برائے نام بادشاہ ہیں اور اصل میں بڑی قوتوں کے کٹھ پتلی ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘یو اے ای کا عمل نہ تو عالم عرب کی نمائندگی ہے نہ امت مسلمہ کا فیصلہ ہے، امت مسلمہ کو واضح موقف کے ساتھ سامنے آنا چاہیے ورنہ وہ آگے بھی بڑھ سکتے ہیں اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو ضائع کرسکتے ہیں۔’